Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Khadim e Pakistan Ko Darpesh Challenges

Khadim e Pakistan Ko Darpesh Challenges

خادم پاکستان کو درپیش چیلنجز

اگر شہباز شریف کی مختلف الخیال جماعتوں پر مشتمل حکومت باقی کا سال ڈیڑھ سال پی ٹی آئی جیسی ٹف اپوزیشن کی موجودگی میں مکمل کرنا چاہتی ہے، اور اس سال، ڈیڑھ سال میں 22 کروڑ کی آبادی میں سے 20 کروڑ انتہائی غریب عوام کو ریلیف بالخصوص مہنگائی کو 2018 کی سطح پر لا کر 2023 کے الیکشن کے لئے اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی ہے، بصورت دیگر پی ٹی آئی آپ کا جینا حرام کر دے گی۔

متحدہ اپوزیشن کا سروائیول، غریب آبادی کو ریلیف دینے میں ہے، کھانے، پینے کی اشیاء، گیس، بجلی، پٹرول کو 2018 کی سطح پر لانا اور ڈالر کو 125 تک لانے میں ہے۔

اتوار کی رات عمران خان کی درخواست پر پورے ملک میں جس طرح لوگ نکلے، وہ موجودہ حکومت کے لیئے کسی طرح بھی اچھا نہیں تھا، اور کپتان کا پشاور کا اعلان کردہ جلسہ مستقبل کی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ پی ٹی آئی کی نااہلیوں اور ناکامیوں سے موجودہ حکومت کو سیکھنا چاہیے۔

پی ٹی آئی کا خیال تھا 4 سال مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار بجلی گیس پٹرول کی مہنگائی سے عوام کا خون نچوڑ کر اورآئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کر کے اور یہ سب کچھ کر کے آخری سال عوام کو تھوڑا بہت ریلیف دے کر، بیرونی ممالک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کربیرونی ممالک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت پی ٹی آئی کی سپورٹر ہے۔

جس کی وجہ اچھی آمدن کی وجہ سے مہنگائی سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے، ہیلتھ کارڈ، احساس پروگرام وغیرہ وغیرہ سے 2023 کا الیکشن جیت جائیں گے۔ یہ پی ٹی آئی کی پلاننگ تھی 2023 کا الیکشن جیتنے کی، لیکن قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے کہ "ایک پلاننگ تم کرتے ہو، ایک پلاننگ اللہ کرتا ہے اور اللہ کی پلاننگ بہترین پلاننگ ہو تی ہے" میں پچھلے تین سال سے لکھ رہا ہوں کہ مہنگائی پی ٹی آئی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

یہاں پی ٹی آئی والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ مہنگائی کرونا کی وجہ سے ہے، اور یورپ، امریکہ، اور عرب ممالک میں بھی مہنگائی ہے تو کپتان بیچارہ کیا کرتا، تو عرض ہے امریکہ اور سعودی عرب کی فی کس آمدن تقریباً 48000 ڈالر ہے اور پاکستان کی 1100 یا 1400 ڈالر۔

پی ٹی آئی کے وزراء، مشیر اور ترجمان جو باتیں ٹی وی پر کرتے اکانومی کے بارے میں وہ صرف دس فیصد آبادی کو سمجھ آتی تھی، باقی کی نوے فیصد غریب ترین عوام پی ٹی آئی بلکہ ہر گورنمنٹ کو کریانے کی دکان اور اپنے کہچن کے چولہے سے جج کرتی ہے۔

بہرحال خادم اعلیٰ سے خادم پاکستان کا سفر مکمل کرنے والے شہباز شریف کو بہت زیادہ چیلنجز درکا ہوں گے، ان چیلنجز سے شہباز شریف کیس طرح ڈیل کرتے ہیں وہ بھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی خالی نشستوں اور بھرے جلسوں کی موجودگی میں۔

یہ پنجاب کے سپیڈ مین اور اچھے ایڈمنسٹریٹر اور بیوروکریسی پر مضبوط گرفت کا بھرم مرکز میں بھی رکھ پاتے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔ پی ٹی آئی کی جہاں دوسری ہہت سی خامیاں تھی۔ ان میں ایک بڑی خامی بیوروکریسی پر صفر جی ہاں صفر کنٹرول تھا۔

اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیں کہ کسی ایک شہر کے ایک بازار کے اندر ایک ہی کوالٹی کی چیز کے مختلف ریٹ ہوتے تھے۔ اور جب دکاندار سے شکوہ کیا جاتا تو ہر دکاندار مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہتا کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ گئ ہے۔ مطلب جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ اس شہر پر کسی اے سی، ڈی سی۔ پرائس کنٹرول اتھارٹی اور حکومت وقت کا کوئی عمل، دخل اور کنٹرول نہیں ہے۔

اور غریب بیچارہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو برا بھلا کہتا گھر چلا جاتا اور یہ کام تقریباً ہر غریب آدمی کے ساتھ دن میں تین بار ہوتا تین بار مطلب (ناشتہ، لنچ اور ڈنر) اور عمران خان کو مروانے والے مشیر اور ترجمان سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے خان کو جب کہ سب بلکہ غریب کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کے مشیر اور ترجمان کپتان کو احساس پروگرام اور ہیلتھ کارڈ سے مستفید اور بیرون ملک پاکستانیوں کا ووٹ اور سر پر مضبوط ہاتھ دکھا کر خوش کرتے رہے۔ کسی نے 22 میں سے 20 کروڑ انتہائی غریب عوام کی دن میں تین بار دی جائے والی بد دعائوں اور گالیوں کے بارے میں کپتان کو نہیں بتایا، ورنہ شاہد آج کپتان اور پی ٹی آئی کا یہ حال نا ہوتا۔

بہرحال اب خادم پاکستان کی حکومت کا سروائیول صرف اور صرف عوام کو ریلیف دینے میں ہے۔ اب دیکھیں گے کہ کپتان کے خوش آمدی وزراء مشیروں اور ترجمانوں کی طرع شہباز شریف بھی اپنے خوش آمدیوں سے سب اچھا سن کر خوش ہو گا یا غریب عوام کی حقیقت جان کر عوام کو حقیقی ریلیف دے گا؟

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi