Dhanak Ka Athwan Rang
دھنک کا آٹھواں رنگ
چند دن پہلے سوشل میڈیا پر مفتاح اسماعیل کی ایک چھوٹی سی ویڈیو نظر سے گزری جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں سیاست دان کا بچہ سیاست دان بنے گا، بیوروکریٹ کا بچہ بیوروکریٹ اور ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر، تو پھر بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ شاعرِ ہر دل عزیز کے سایہ عاطفت میں پھلی اور لائقِ صد تعظیم محترمہ صدیقہ انور کی صاحبزادی، لوح و قلم سے دور رہتیں۔ کیسے ان کا قلم معاشرتی تضادات پر انگارے نہ اگلتا اور کیسے ان کی تحریریں مغموم دلوں کی ترجمانی نہ کرتیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا، دھنک کے آٹھویں رنگ کو وجود پانا ہی تھا۔ سو کئی مضامین کا مجموعہ ایک گلدستے کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔
سننے میں آ رہا ہے کہ پہلے مہینے میں ہی پہلے ایڈیشن کی ساری کاپیاں فروخت ہوگئیں ہیں۔ فروخت کیسے نہ ہوتیں۔ "ہم سب" میں لکھتے لکھتے لینہ آپا نے ہم سب کے دلوں میں ایک ایسی جگہ بنائی تھی کہ ان کی کتاب آتے ہی سب کے سب اس پر ٹوٹ پڑے اور آن کی آن میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا۔ "دھنک کا آٹھواں رنگ" اور "ہری یوپیا" جب مجھ تک پہنچیں، ان کی آرائش و زیبائش دیکھ کر "بک کارنر جہلم" کا تو میں اسی دن معترف ہوگیا تھا کہ اس بیوٹی پارلر سے کتاب کا سج دھج کر نکلنے کے بعد ہر کوئی اس کے حسن و جمال پر دل و جان سے واری جاتا ہے۔
لیکن دھنک کا آٹھواں رنگ پڑھنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس بیوٹی پارلر (بک کارنر جہلم) میں کتاب کی سیرت دیکھ کر ہی صورت گری کی جاتی ہے۔ اس ادارے میں چھپنے والی کتابوں میں ضرور کچھ نہ کچھ نیا پڑھنے کو ملے گا۔ دھنک کا آٹھواں رنگ پڑھتے پڑھتے کب آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، کب جسم تھر تھر کانپنا شروع ہو جاتا ہے، کب آنسو گالوں کو تر کر کے ڈاڑھی میں جذب ہو جاتے ہیں یا گریبان کو بھگو دیتے ہیں کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔
مضمون کا آغاز ہلکے پھلکے جملوں سے ہو جاتا ہے، لیکن ان جملوں کا ہلکا پن آگے جا کر اتنا وزنی ہو جاتا ہے کہ سینے پر ایک بھاری پتھر کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دل کی دھڑکن رک سی جاتی ہے۔ گو کہ اس کتاب کی نمائندہ تحریر "مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط" ہے لیکن اس میں ایسے کئی مضامین موجود ہیں جن کے آخر میں لینہ آپا کی ہلکی طنز کا نشتر سینے میں پیوست ہو کر رہ جاتا ہے۔ "تیس من گندم" کے آخری چند جملے (جو چیخ چیخ کر پنچایتی نظام کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں) ملاحظہ ہوں۔
"ننھی گندم کی بوریوں کے پاس کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی اور تیس من گندم کی واپسی پر حیران تھی۔ دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کاش، یہ گندم اس کے ابا کو مل جاتی تو روز تازہ روٹی کھاتی۔ ایک نے ننھی کی حسرت بھری نگاہوں کو بھانپ لیا اور اس سے پوچھا۔ "گندم چاہیے؟" ننھی نے معصومیت میں سر، ہاں میں ہلا دیا۔ علی الصباح جب اچھی آپا نے علاقہ چھوڑنے کے لیے دروازہ کھولا تو ننھی کے گھر کے باہر تیس من گندم کے ساتھ خون میں لت پت ننھی کی لاش ملی"۔
اس کتاب میں مزاح کے بھی اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ ابھی کوئی دل شکن مضمون پڑھنے سے قاری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں کہ کوئی مزاح پارہ اس کے چہرے پر مسکان بکھیر دیتا ہے۔
انور مسعود صاحب نے کہا تھا کہ مزاح اور مزاج میں بس ایک نقطے کا فرق ہے، اگر ایک نقطے کا اضافہ کر دیں تو مزاح، مزاج بن جاتا ہے، تو میں کہنا چاہوں گا کہ اس نقطے کا اضافہ لینہ آپا نے کر دیا ہے۔ اس نے طنز و مزاح کو دکھی مزاجوں کا ترجمان بنا دیا ہے۔
اس کتاب کا نام تو "دھنک کا آٹھواں رنگ" ہے لیکن اس میں ہزاروں رنگوں (موضوعات) کا امتزاج مل جاتا ہے۔ اس میں ان ظالم عربوں کی ہوس ناکی بھی موجود ہے جو دن کی روشنی میں تلوار کا شکار کرتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں معصوم کلیوں کو مسل کر مرجھا دیتے ہیں۔ اس میں سانحہ پشاور کی دردناک داستان بھی موجود ہے اور ان والدین پر طنز بھی ہے جو اپنے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق انھیں ڈاکٹر یا انجنیئر بننے پر مجبور کرتے ہیں۔
نیز یہ کتاب ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول ہیں اور ہر پھول کی خوشبو اس کا مزاج اور اس کی تاثیر دوسرے سے مختلف ہے۔ آخر میں بس اتنا کہ جس لکھاری کی پہلی تخلیق دھنک کے سات رنگوں میں ایک اضافہ ہو اس کی باقی تخلیقات کا کیا تصور ہو سکتا ہے، ان رنگوں کی تعداد کہاں تک پہنچ جائے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا اس کے لیے محترمہ لینہ حاشر کی دیگر تخلیقات کا انتظار کرنا ہوگا۔