Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Psk Roos Taluqat

Psk Roos Taluqat

پاک روس تعلقات

روس پوری دنیا میں سب سے زیادہ رقبہ رکھنے والک ہے۔ یہ کل دنیا کے رقبے کا دسواں زمینی حصہ رکھنے والا ملک ہے جو دوبراعظموں ایشیاء اور یورپ پر پھیلا ہوا ہے۔ گیارہ ٹائم زونز کے ساتھ تین سمندروں اٹلانٹک، پیسیفک اور آرکٹک میں اسکی بحری سرحدوں تک وسیع ہیں۔ سیکڑوں دریا، لمبی جھیلیں اور بے شمار پہاڑی سلسلے میں اس ملک کی زینت ہیں۔ خلا میں قدم رکھنے والا سب سے پہلا ملک روس ہی تھا۔ روسی خطے میں قریبا 120 مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔

پاکستان اور روس کے تعلقات ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آغاز 1947 میں پاکستان کی آزادی کے ساتھ ہی ہوا۔ یکم مئی 1948 کو پاکستان اور روس نے باقاعدہ اپنے سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی۔ ان تعلقات کی بنیاد نیویارک میں موجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت عمل میں آئی۔ 1950 تک دونوں ریاستوں نے اپنے تعلقات کو آزادانہ جاری رکھا۔ 1960 تک دونوں ریاستوں کے درمیان وفود اور سرکاری سطح پر باہمی امور کا تبادلہ ہوتا رہا۔

پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کی ابتدائی دہائیوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور دوستی کے جذبات موجود رہے۔ دونوں ممالک نے تجارت، ثقافتی تبادلے اور دفاعی تعاون کے شعبوں میں تعاون کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں سویت روس نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ بعض رپورٹس کے مطابق سویت روس نے پاکستان کی محدود پیمانے پر عسکری مدد کی لیکن اس بات کی وضاحت سامنے نہیں آسکی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران سویت روس نے بھارت کی کھلے عام سفارتی مدد کی اور عسکری تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی جس سے پاکستان کے روس کے ساتھ خارجہ محاذ پر تعلقات شدید سرد مہری کا شکار ہوگئے۔

خارجہ تعلقات پر مکمل برف جم گئی جب 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کردیا۔ پاکستان چونکہ امریکی اتحادی تھا اس لیے پاکستان نے سویت روس کی افغانستان میں مداخلت پر امریکی چھتری تلے روس کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کے حملے کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ افغانستان کے لیے اپنی سرز مین بطور جہادی ائیر بیس بھی بنادی۔ روس کے افغانستان چھوڑنے اور بد ترین شکست کے بعد پاک روس تعلقات میں دراڑ آگئی۔ 1980 میں دو طرفہ تعلقات میں ابدتری آگئی جب پاکستان کی سرزمین سے گوریلا فائٹرز افغان جہاد کےلیے تیار ہوکر لڑنے لگے۔

1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے لگی۔ دونوں ممالک نے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام شروع کیا۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آرمینیا، آذربائیجان، بیلاروس، اسٹونیا، جارجیا، قزاکستان، کرغیزستان، لیٹویا، لتھونیا، مالٹا، تاجکستان، ترکمانستان، یوکرین اور ازبکستان بطور آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ سویت یونین ٹوٹنے کےبعد روس ایک فیڈریشن کے طور پر ابھرا تو پاک روس تعلقات میں نہ صرف بہتری آئی بلکہ دونوں ممالک نے ان تعلقات کی از سرنو تعمیر کی جس میں دوطرفہ تعاون اور مشترکہ مفادات میں اضافہ ہوا۔

پاکستان اور روسی ملٹری تعلقات بھی اچھے نہ تھے اور اس کی بنیادی وجہ روس کا بھارتی فوج کے ساتھ عسکری تعاون تھا۔ پاک روس دفاعی تعلقات میں کوئی مثالی تعاون دیکھنے کو نہیں ملتا۔ صرف 1979 میں روسی ہیلی کاپٹر ماورک کا پاکستان کو تحفہ دیا گیا۔ اس کے علاوہ راولپنڈی میں دونوں ممالک کے وفود نے پہلے معاہد ے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کو Joint Military Consultative Committee (JMCC)کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے دوطرفہ ملٹری تعلقات کے فروغ کیلئے بھی دستخط کیے۔ اس معاہدے کی رو سےپاکستانی کیڈٹس اور روسی کیڈٹس ایک دوسرے کے ممالک میں ملٹری ٹریننگ کاحصہ بھی بنے گے۔ سن 2015 میں روس کی جانب سے دفاعی تعلقات میں ایک پیش رفت ہوئی۔ یہ ایک ڈیل تھی جس میں چار روسی اٹیک ہیلی کاپٹر Mi-35، Hind Eکی پاکستانی ملٹری کو فروخت تھی۔ 2015 کو پاک روس ایل این جی گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ پاکستان روسی ساختہ Su35 فائٹر جیٹس T-90، ٹینکس اور ائیر ڈیفینس سسٹم بھی خریدنے کا خواہاں ہے۔

جہاں تک پاک روس سیاسی اور سفارتی تعلقات کا تعلق ہے تو تاریخ میں جھانکنا پڑے گا۔ پاکستان امریکی بلاک کا حصہ تھا اور بھارت روسی اثرو رسوخ میں۔ دونوں سپر پاورز نے اپنے تئیں ان دونوں ممالک کی سیاسی اور سفارتی مدد کی۔ لیکن اس اثرو رسوخ کے باوجود 1960 میں سویت یونین نے پاکستان کو تکنیکی اور معاشی میدان میں تعاون کی پیشکش کی۔ اس پیشکش میں سٹیل ملز اور نیوکلئیر انرجی کا پر امن استعمال شامل تھے۔ 2007 میں پاک روس تعلقات میں ایک دفعہ پھر گرم جوشی آئی جب روسی وزیر اعظم میخائل فریکدوف نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تعینات روسی سفیر الیکسی یوریویچ دیدوف نے پاکستان تحریک انصاف نے چئیر مین عمران خان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔

معاشی میدان میں دونوں ممالک کے تعلقات کو دیکھا جائے تو روس نے ہمیشہ پاکستانی معیشت میں تعاون اور گرم پانیوں تک رسائی کیلئے کئی مرتبہ پاکستانی حکومتوں کو آفرز کی۔ معاشی امداد کے علاوہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بھی بہتری کی نشاندہی ہوتی رہی۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بغیر سود کے آسان شرائط پر قرض کی فراہمی بھی تعاون کا حصہ رہی ہے۔ 60 کی دہائی میں پاکستانی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو نے سویت یونین کو پاکستانی سرزمین پر سویت آئل فیلڈ لگانے اور دیگر معدنیات کی تلاش میں خوش آمدید کہا۔ پاکستان سٹیل مل اسی تعاون کی ایک مثال ہے۔

پچاس سال بعد دونوں ممالک نے Geological Prospecting، پاکستانی انجینئرز کی ٹریننگ کیلئے ایک تقریب منعقد کی۔ اس تقریب میں روس نے پاکستانی ثقافت کو روسی معاشرے میں متعارف کروایا۔ کراچی میں روسی ثقافتی سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ ماسکو، تاشقند فلم فیسٹیول میں منعقد کیا گیا۔ پاکستانی ثقافتی اور لوک ڈانس، گیت اور Puppet Theatre کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ روسی اور پاکستانی کھانوں کو تبادلہ بھی ہوا۔

حرف آخر یہ کہ پاکستان پچھلے پچھتر سالوں سے اپنی خارجہ پالیسی کی سمت کو امریکی مفادات اور اثرو رسوخ تلے ہی موڑ رہا ہے۔ امریکی مفادات نے ہماری معیشت کو عارضی سہارا تو دیا لیکن ہمارا بیانیہ لینڈ آف پیور سے لینڈ آف ٹیررزم میں بدل گیا اور پاکستان کا سافٹ امیج مکمل طور پر خراب ہوگیا۔ ہمیں چین کی طرز پر روس سے تعلقات استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ روس وہ طاقت ہے جس کی طرف ہماری دفتر خارجہ کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ روس کی خارجہ پالیسی اب مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستوں میں کامیابی سے گامزن ہے۔ ایران اور روس مل کر مشر ق وسطیٰ میں امریکہ کو شکست دے چکے ہیں اور معیشت کے میدان میں چین اپنے جھنڈے بلند کرتا جارہا ہے۔ ہماری فیصلہ ساز قوتوں کو اس جانب بھی دیکھنا ہوگاورنہ ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی زیادہ دیر تک کام نہیں کرے گی۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan