Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Palestine Kisi Ko Yaad Hai?

Palestine Kisi Ko Yaad Hai?

فلسطین کسی کو یاد ہے؟

پچھلے سال ماہ رمضان میں اپارتھائیڈ ریاست اور طاقتوں کی ناجائز اولاد اسرائیل کی سیکورٹی فورسز نے فلسطینی مسلمانوں پر گیارہ دن تک تباہی پھیلانے والے حملے کیے۔ جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی جاں بحق ہوگئے۔ یہ حملے اس وقت تک نہیں رک سکے جب تک انسانیت سوز مظالم کا رونا عالمی سطح پر نہ رویا گیا۔ اردن جو اسرائیل کے ساتھ مل کر مقبوضہ بیت المقدس میں مقدس مقامات کی نگرانی کرتا ہے اس نے اسرائیل سے مل کر مذاکرات تیز کرنے کی سعی کی تا کہ گزشتہ سال کی طرح کوئی ناخوشگوار واقع نہ ہو۔

لیکن اردن اور اس جیسے اسلامی ممالک کی اسرائیل کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ اس سال رواں ماہ میں کچھ اسرائیلی پولیس اہلکار مسجد بیت المقدس میں نماز فجر سے پہلے داخل ہوکر دھاوا بولتے ہیں۔ فائرنگ کے نتیجے میں 152 فلسطینی زخمی اور کچھ شہید ہوجاتے ہیں۔ یہ واقع اس وقت پیش آتا ہےجب مسلمان ماہ مقدس رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں، عیسائی اپنا مذہبی تہوار ایسٹر منارہے ہیں اور یہودی عید فسح منارہے ہیں۔ اس واقع نے دنیائے اسلام میں کوئی جذباتی یا احتجاجی لہر پیدا نہیں کی۔

کیونکہ مسلم ممالک خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ امت مسلمہ کا نام نہاد ٹھیکدار سعودی عرب، جس کے ساتھ خلیجی ممالک شامل ہیں، نے کوئی خاص رد عمل نہیں دکھایا۔ مسلم امہ کا ٹھیکیدار ہونے کے ناطے سعودی قیادت کا فرض تھا کہ وہ اس واقع کو او آئی سی کی کانفرس میں لے جاتے۔ باقی رہ گیا پاکستان تو اس کے سیاستدان اپنے اقتدار کے دنگل میں ہیں۔ ان سے ابھی ایسی امید نہیں کی جاسکتی۔ اگر ہم گوگل میپ کھولے اور اس پر فلسطین ٹائپ کریں تو ہمیں ایک ایسا نقشہ ملے گاجس پر فلسطین کی جگہ اسرائیل لکھا ہواگا۔

فلسطین کی جغرافیائی حدود کافی حد تک مسخ کی جاچکی ہیں۔ یہ عمل آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہے گا اور ایک دن فلسطین صرف تاریخ کے اوراق میں ملے گا۔ ہماری آنے والی نسلیں فلسطین کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھیں گی کہ مسلمانان فلسطین کس طرح اپنی ہی سرزمین میں اکثریت سے اقلیت میں بدل دیے گئے اور ان کے ساتھ وہی ہوا جیسے ہر اس اقلیت کے ساتھ اس دنیا میں ہوتا ہے۔ ہم فلسطین کو مثال بنا کراتنا سمجھ سکتے ہیں کہ ناجائز ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا۔

اس جنت نظیر میں شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں اوراب سارے ہندوستان سے ہندوؤں کو بسایا جارہا ہے۔ اس کا واحد مقصدمقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حدود تبدیل کرناہے اور ایک دن اقوام متحدہ کے عرصہ پرانے استصواب رائے کے عمل کو ہندوستان کی نگرانی میں مکمل کروا کر بھارت میں شامل کرنا ہے۔ جیسے فلسطین کے بارے میں بیشتر اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے معاملے میں بھی ایسا ہی رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے جاری سیاسی کشیدگی اختتام کو پہنچی ہے۔ ایک جمہوری حکومت کو اعلیٰ عدلیہ کے تاریخی فیصلے کے ذریعے جمہوری طریقہ کے تحت ختم کیا گیا اوراس کی جگہ اتحادی جماعتوں کی مشترکہ حکومت قائم کی گئی ہے۔ یاد رہےیہ ختم ہوئی نہیں کی گئی ہے۔ فیصلہ تاریخی ہےجسے آنے والا وقت ثابت کرے گا۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سےشہید اور زخمی فلسطینیوں کے حق میں اور اپارتھائیڈ ریاست اسرائیل کے خلاف کوئی گرج دار آواز بلند نہیں ہوئی۔

یہ جمود اور خاموشی بتاتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کی سوچ اسلامی یا قومی نہیں۔ ان کی سوچ ذاتی اور انفرادی مفادات پر مبنی ہے جس کے لیے وہ ہمہ وقت تگ و دو میں رہتے ہیں۔ حدیث رسول مقبول ﷺ کے مطابق تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لہٰذا اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو دیگر مسلمان بھائیوں کو بھی اس تکلیف کو محسوس کرناچاہیے۔ اگر وہ تکلیف محسوس نہیں کر سکتے تو کم از کم اس تکلیف کے کم کرنے کیلئے کوئی عمل کرسکتے ہیں۔

اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم تکلیلف پہنچانے والے عناصر کے خلاف تو کچھ کرسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر حالیہ واقع پاکستان میں صرف اخبارات کی شہ سرخیوں تک محدود رہا ہے۔ یہ ہلاکتیں ایک خبر کی طرح چلی اور خود بخود ختم ہوگئیں۔ مغرب ممالک کی اکثریت چونکہ امریکی جھنڈے تلے ہے اور انکل سام کی خارجہ پالیسی کی حمایت میں سر تسلیم خم کر تی ہیں لہٰذا ان کی طرف سے فلسطینیوں کے حق میں کوئی بیانات سامنے نہیں آتے۔

اگرکوئی مغربی ملک ایسا کرنا بھی چاہے تو وہ صرف انسانی حقوق کی خاطر ایسا بیان جاری کرے گا جس میں دونوں فریقین کو امن کی طرف راغب کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ وہ انسانی جانوں کے ضیاع پر صرف تحریری دکھ کا اظہار کرسکتاہے۔ اقوام متحدہ نے جہاں کشمیر پر استصواب رائے اور حق خود ارادیت کو پس پشت ڈال رکھا ہے وہاں فلسطینیوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے وہ اسرائیل کے زیادہ تر اقدام کی کھلم کھلا احتجاج کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے معنی و مفہوم میں اختلاف پیدا ہوجاتے ہیں۔ آپ سوچ سمجھ کر جواب دیں کیا یہ ادارہ متحدہے؟ کیا اقوام متحدہ غیر جانبدار ہے؟ کیا یونائٹڈ نیشن آج تک امریکہ کے انسانیت سوز اقدامات پر اس کو نتھ ڈال سکا؟ کیا اس میں شامل مسلمان ممالک میں جاری امریکی و اسرائیلی مظالم کے خاتمے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام کیے گئے؟ کیا امریکہ بطور سپر پاور اس ادارے پر متعدد بار اثر انداز نہیں ہوتا؟ ان سوالوں کا جواب یقینا نفی میں آئے گا۔

مسلمانان فلسطین و کشمیر اس وقت تک ظالموں کے ہاتھوں مرتے رہے گے جب تک اقوام عالم جانبداری اور تعصب پسندی کی عینک اتار نہیں دیتے۔ ان مسلمانوں پرا ن کی اپنی زمین اس وقت تک تنگ رہے گی جب تک امت مسلمہ ایک نہیں ہو جاتی۔ کشمیری و فلسطینی عوام اپنے بنیادی و جمہوری حقوق سے اس وقت تک محروم رہیں گے جب تک مسلمان ممالک اپنی خارجہ پالیسی کی سمت ان مظالم کے خاتمے کی طرف نہیں کر لیتے۔

ان خطوں کے معصوم بچے اور عورتیں اس وقت تک لقمہ اجل بنتے رہیں گے جب تک امت مسلمہ کے ٹھیکیدار اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد نہیں کرالیتے۔ سب چھوٹے بڑے ممالک کو چاہئے کہ وہ ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس میں مسلم فرسٹ کی پالیسی کو نمایا ں مقام حاصل ہو۔ اقوام متحدہ پر متحد ہو کر زور ڈالا جائے کہ وہ ان تاریخی مسائل کو جلد از جلد انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان کا دیر پا حل پیش کرے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan