Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pakistan Aur Kharja Policy

Pakistan Aur Kharja Policy

پاکستان اور خارجہ پالیسی

یوں تو پاکستان 1947 کو برطانوی تسلط سے باقاعدہ آزاد ہوگیا تھا لیکن ارض پاک کی خارجہ پالیسی آج تک آزاد نہیں ہوسکی۔ یہ پہلے دن سے ایک ہی دائرے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کودیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچے گے کہ ہماری کوئی اپنی علیحدہ اور خاص خارجہ پالیسی نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو تمام اسلامی ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات قائم کرنے اور باقی دنیا سے امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کا عندیہ تھا۔

قدرت عظیم قائد کو اتنی مہلت نہ دے سکی کہ وہ ملکی خارجہ پالیسی کی مضبوط بنیاد رکھیں۔ قائد محترم کے بعد ملک کی باگ دوڑ سیاستدانوں اور پھر مارشل لاء ڈکٹیٹرز کے ہاتھ آئی تو انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نظریہ ضرورت سے جوڑ دیا، پاکستان کو سیکیورٹی سٹیٹ سمجھا اور مضبوط فوج کے تصور کو تقویت دیتے ہوئے اس وقت کی سپر پاور امریکے کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے۔ اس طریقے سے ہماری خارجہ پالیسی کی پیوند کی گئی۔

خارجہ پالیسی وقتی ضروریات کے ساتھ بنتی اور بدلتی رہی۔ کئی ایسے موڑ آئے جس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ ہماری خارجہ پالیسی وہ ہے ہمارے سٹریٹجک پاٹنرز پلان کرتے تھے۔ اس قسم کی پالیسی کا ہمارے بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات پر گہرا اثر پڑا۔ اور ہم نے بیٹھے بٹھائے کئی ممالک کو اپنا دشمن مان لیا۔ ہمارے بیرونی دنیا سے تعلقات بنتے اور بگڑتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں سوائے چین کے خاصہ اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ بھارت کے ساتھ تو باقاعدہ جنگیں بھی ہوئیں۔ روس سے بھی آئیڈیل تعلقات نہ قائم ہوسکے۔

اگر خارجہ پالیسی کو بھارت کے ساتھ دیکھا جائے تو شروع دن سے ہمیں بھارت سے بد امنی وخطرہ محسوس ہوا۔ یہ خطرہ یا تو پیدا کیا گیا یا ہمارے اقدام کے رد عمل میں پیدا ہوا۔ ہندوستان کے ساتھ تاریخی حل طلب مسئلہ کشمیر جڑا ہوا ہے اس لیے تعلقات میں بہتری بہت کم کم دیکھنے کو ملی۔ ہمسایہ ملک سے ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں اب یہ ہمارا ازلی دشمن ڈکلیرڈ ہے۔ افواج پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو ان کا زیادہ ایڈوینچر بھارتی افواج سے الجھنے میں رہا۔

1948، 1965، 1971 اور 1999 میں ہمارا سامنا اپنے سے تین گنا زیادہ بڑے ملک انڈیا سے ہوا۔ ان ساری جنگوں کے تانے بانے مسئلہ کشمیر سے جڑ ے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں آہستہ آہستہ سرد مہری آتی گئی۔ ایسا وقت بھی آیا جب دونوں ملکو ں کے لیڈرز صرف بین الاقوامی کانفرنسز میں بہانے سے مل لیتے۔

ہمارے مغرب میں اسلامی ملک افغانستان ہے جس کے ساتھ ہمارابائیس سو سے زائد لمبا بارڈر ڈیورنڈ لائن ہے۔ افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات کوئی بھارئی چارے والے نہیں رہے۔ شروع دن سے افغان حکومتوں نے انٹرنیشنل بارڈر کو کھلے دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ افغانستان میں امن ایک خواب ہی رہا ہے۔

روس کے خلاف جارحیت ہو یا اندرونی متحارب سیاسی وعسکری گروہوں کے درمیان لڑائی ہو، افغانستان میں آگ ہی آگ دکھائی دی ہے۔ پاکستان نواز طالبان نے جیسے تیسے حکومت قائم کی تو انہیں ہمارا آشیر باد حاصل ہوگیا لیکن یہ بھی زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکا۔ امریکہ میں ہونے والے 11/9 کے حادثے نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر پینٹ کیا اور ان کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا۔

چونکہ امریکہ ہمارا پرانا اتحادی ہے۔ پاکستان بھی امریکی کیمپ میں تھا اور ہے۔ لہذا ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کاساتھ دینے کا اعلان کیا اور اپنے ہی ہمسائے ملک میں تباہی و بربادی کو دعوت دے ڈالی۔ امریکہ کا ساتھ دینے کے بدلے میں ہم نے ہزاروں بلکہ لاکھوں سول و عسکری جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں امن ایک خواب بن کے رہ گیا تھا۔

ہماری مساجد اور دیگر عبادت خانے بھی محفوظ نہیں تھے۔ آئے روز دھماکے ہوتے اور معیشت، سیاست، سیاحت، کھیل اور ثقافت غیر محفوظ ہوگئے۔ امریکہ کا ساتھ ہمیں کافی مہنگا پڑا۔ اس کے بدلے میں ہمارے قومی تشخص کا بیڑا غرق ہوا۔ اہمیں اپنی جداگانہ شناخت قائم کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرناپڑا۔ جب امریکی افواج طالبان کو شکست نہ دے سکی تو سارا الزام ہم پر لگا یا گیا۔ پاکستان بطور دہشت گرد سپانسرڈ سٹیٹ بدنا م ہوتا رہاجس میں بھارتی بیانیہ خاصہ پیش پیش رہا ہے۔

چین کے ساتھ ہمارے خارجہ تعلقات قدرے بہتر ہیں۔ پاک چین تعلقات 1951 کی بنیاد پر قائم ہیں۔ چین کو پاکستان کے ہر معاملے میں سپیس دی جاتی ہے۔ اس کے بدلے میں چائنہ بھی ہمارا پورا پورا ساتھ دیتا ہے۔ یہ تعلقات ثقافتی، ڈپلومیٹک، جیو پولیٹیک، دفاع و سلامتی، معاشی اور تکنیکی امداد سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1960 اور 70 کی دہائی میں جب چین پر کڑا وقت آیا تو پاکستان اس کے ساتھ کھڑا رہا۔ گو امریکہ ہمارا سٹریٹیجک پارٹنر ہے لیکن چائنہ سے بھی تعلقات کافی گہرے ہیں۔

مشہور ہے کہ پاک چین دوستی سمندر سے گہری اور آسمان کی بلندیوں سے اونچی ہے۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے ہر آڑے وقت پاکستان کا ساتھ دیا اور ہر مشکل میں ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ پاک بھارت جنگ ہو یا بین الاقوامی بیانیہ، چین نے پاکستان کے موقف کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ہر ان اقدام کی مذمت بھی کی جس سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہو۔

جہاں تک ایران پاکستان کے خارجہ تعلقات کا تعلق ہے تو ایران کو ہمیشہ برادر اسلامی ہمسایہ ملک کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں چند ایک مرتبہ پاک ایران بارڈر پر کشیدگی رہی جس سے تعلقات میں مختلف اتار چڑھاؤ آتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں بہتری آتی رہی۔ ایران اور سعودی عرب میں لمبی اور دیرینہ مسلکی و سیاسی اختلافات موجود ہیں اور ہمارا جھکاؤ زیادہ سعودی عرب کی جانب ہے لہذا ایران سے اس نوعیت کے تعلقات نہیں جیسے سعودی عرب اور چین کے ساتھ ہیں۔

پاکستان میں مسلکی بنیاد پر خانہ جنگی کا عالم بھی رہا ہے جب افغانستان میں روس کے خلاف جارحیت ختم ہورہی تھی۔ تب ایران کی مذہبی لیڈر شپ کی طرف سے تندو تیز بیانات اور سرد مہری محسوس ہونے لگی۔ ایران ایک عرصے سے اپنے مسلک کے فروغ، مضبوطی اور تحفظ کیلئے ہر خطے میں ایکٹو ہے۔

آج پاکستان کے حالیہ اندرونی اور بیرونی تعلقات ایک نئی سمت طے کرنے کیلئے توجہ طلب ہیں۔ روس اور امریکی سرد جنگ ختم ہوچکی ہے۔ روس کی جگہ اب چین کے معاشی جن نے لے لی ہے۔ امریکہ کو اس وقت جس طاقت سے سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ چین ہے۔ کیونکہ چین کی نئی حدود کو چھوتی ہوئی معاشی طاقت امریکہ کیلئے پریشان کن ہے۔ ہمیں نظریہ ضرورت کے رٹے ہوئے اسباق کو ایک طرف کرتے ہوئے اب آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہیئے۔

اس کیلئے ہمیں مشکل سے مشکل تر دور سے گزرنا ہوگا۔ پاکستان کے تشخص، قومی بیانیے اور دیر پا تعلقات پر مبنی ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرور ت جس میں پاکستان فرسٹ اور پاکستان کے پر امن مفادات کا تحفظ سر فہرست ہوں۔ بیرونی دنیاسے تعلقات میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Hamare Khawab

By Azhar Hussain Bhatti