Pak Uzbek Taluqat
پاک ازبک تعلقات
ازبکستان ایک ایسا ایشیائی ملک ہے جو ایشیا کے مرکزی خطے میں موجود ہے۔ اس کی سرحدیں قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ انگریزی اصطلاح میں یہ ملک لینڈ لاک ہے جس کی سرحد یں خشکی پر ہیں اور کوئی سمندر اس کی سرحد پر نہیں ہے۔ ازبکستان کا کل رقبہ تقریباً 448، 978 مربع کلومیٹر ہے جس سے یہ دنیا کا رقبے کے لحاظ سے 56واں بڑا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی کل آبادی 4 3 ملین سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ازبکستان بڑا ملک ہونے کے باوجود آبادی کم ہونے کی بنا پر اس کا شمارزیادہ آبادی والے ملکوں سے بہت کم ہے۔ آبادی کا 80فیصد حصہ مذہبی طور پر مسلمان ہے۔
ازبک عوام ازبک قوم کے رکن ہیں جن کی زبان ازبک ہے۔ ازبکستان کی سرکاری زبان ازبک ہے جبکہ ریاست کی دوسری زبانوں میں سے انگریزی، روسی اور کرغزی بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ازبکستان ایک قدیم تہذیبی ملک ہے جس کا تعلق انسانی تاریخ کے قدیم ادوار میں سے ہے۔ اس کے علاقے خصوصاً بخارا، سمرقند اور خیوہ جیسے شہر مسلمان اور اسلامی علوم کے لئے اہم تعلیمی مراکز رہے ہیں۔ ان شہروں کا شمار عالم اسلام کی روشن علمی اور ثقافتی تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ شہر آج بھی تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سر فہرست ہیں۔
ازبکستان کی زمین زرخیز ہے، جس میں زرخریزی، قدرتی گیس، زرخیز معدنیات، اور مزیدار پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہ ملک اور بہت سے قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ ازبک معیشت انہی قدرتی وسائل کی وجہ سے مزید ترقی کرسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسے خطے سیاسی اور دفاعی اعتبار سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔
سیاحت کے اعتبار سے ازبکستان ایک جنت سے کم نہیں۔ اس ملک کی مختلف تاریخی، فنونی، اور قدیم تہذیبی جگہیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ سمرقند، بخارا، خیوا، ترمیز اور خوکندان چند شہروں میں سے ہیں جو سیاحتی اعتبار سے مشہور ہیں۔ ہر سال لاکھوں غیر ملکی سیاح ان شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ازبکستان کی تاریخی مساجد اور باغات دنیا بھر سے سیاحوں کے لیے کشش کا مرکز ہیں۔ اس کے علاوہ، روزگار کے حوالے سے ازبکستان میں ترقی اور اقتصادی تحریک بھی محسوس کی جاتی ہے جس نے ملکی ترقی کو اہمیت دی ہے۔ قرارگاہ اولیا، معروف صوفی معصوم(بخارا)، جزاکربین(خوبصورت صحرائی علاقہ)، قلعہ بخارا، میر اربل مدرسہ، عبد العزیز خان مدرسہ اور قدیم انسانی تہذیبی نوادرات وغیرہ وہ مقامات ہیں جو سیاحتی اعتبار سے زیادہ مشہور ہیں۔
ایشیا کے مرکز میں واقع ازبکستان دنیا کی تاریخ کے حوالے سے ایک دلچسپ ملک ہے، جو ساحتی مقامات، سیاحتی معیشت کے وجہ سے مزید اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاقے قدرتی طور پرنہایت حسین، تاریخی اور ثقافتی حیرت انگیز مناظر پیش کرتے ہیں جو دنیا بھر سے مسافروں اور سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔
ازبکستان مرکزی ایشیا کے قریبی ملکوں کے لئے اہم علاقائی تعلقات کا مرکز ہے۔ اس کا افغانستان، تاجکستان، کرغیزستان اور قازقستان کے عین درمیان میں ہوناتجارتی، سیاسی اور اقتصادی تعاون کا ایک جزو ہے۔ یہ ان تمام ممالک کے لیے ایک طرح کا مرکزی نقطہ ہے جس سے تمام ممالک فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
ازبکستان روس اور چین کے قریبی خطے تک پہنچنے والا بنیادی سرحد ی ملک ہے جوبین الاقوامی تجارتی راستوں کے لئے اہم ہے۔ ازبکستان کا وسطی مقام اسے ہمسایہ ملکوں کے لئے ایک مقبول ترین راستہ بناتا ہے جو علاقائی اور عالمی تجارت کو بہتر کرتا ہے۔
یہ ایک وسیعرقبے والا ملک ہے جس کا رقبہ کم افراد کے باعث اسے استعمال کرنے کی بڑی توانائی حاصل ہے۔ اس کی زمین نہایت زرخیز ہے جس میں قدرتی گیس، زرخیز معدنیات، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔
ازبک کی تاریخی، ثقافتی اورتعمیری وراثت بھی اس کی جغرافیائی اہمیت کا حصہ ہے۔ بخارا، سمرقند اور دیگر شہر مسلمان اور اسلامی علوم کے لئے اہم تعلیمی مراکز رہے ہیں جو دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس سیاحتی سرگرمی کاازبک معیشت کو مجموعی طور پر بہت فائدہ ہوتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کو پرکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تعلقات گہرے تاریخی بنیادوں پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک اسلامی تہذیب کے حوالے سے مماثلت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان رشتے تاریخی، مذہبی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بناتے آئے ہیں۔
پاکستان اور ازبکستان کے تاریخی تعلقات بہت دیر ینہ ہیں۔ دونوں ممالک کے علاقے خصوصاً برصغیر اور ازبکستان کے قریبی علاقے تاریخی روایات اور فرہنگی تبادلے کا شہرتی مرکز رہے ہیں۔ ازبکستان میں تاریخی شہر بخارا اور سمرقند جیسے علاقوں میں مسلمانوں نے ایک عرصہ تک اپنی تحقیقی اور علمی قابلیت قائم کیے رکھی۔ بخارا تہذیب کا قدیم چمکتا ہوا مرکز تھا جو کہ اسلامی تہذیب کے عین مرکز تھا۔ پاکستان بھی اسلامی تہذیب کے حوالے سے بہت اہم مقامات رکھتا ہے جیسے لاہور، کراچی، اور اسلام آباد۔ شہر لاہور مسلمان صوفیاء اور مذہبی سکالر اپنی روحانیت کا درس دیتے رہے جن کے نتیجے میں ایک اچھی تعداد اسلام سے مشرف با ہوئی۔ ان دو ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے تاریخی وراثت کے اثرات کے اجزاء موجود ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان رابطے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبے میں بھی تعاون پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی بار دونوں ممالک کے سرکاری وفود نے کئی ایک یادداشتوں پر دستخط بھی کیے۔ پاکستان اور ازبکستان دونوں اقوام متحدہ، ایکونومک کوآپریشن آرگنائزیشن(ای سی او)اور شانچی ایکونامک کاریڈور کے رکن ہیں۔ انکے علاوہ اور کئی اقتصادی اور تجارتی معاہدات کے سلسلے میں شریک ہوتے رہتے ہیں تاکہ تجارتی تعاون کو بڑھایا جا سکے۔
پاکستان اور ازبکستان کے درمیان ثقافتی تبادلے کی بھی بہت پختہ تاریخ ہے۔ دونوں ممالک مسلمان تہذیب کے حوالے سے اپنی ایک خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ زبان، موسیقی، ادب اور فنون میں مشابہات پائی جاتی ہیں۔ ازبکستان کے عوام میں اردو زبان کے اشعار اور نظموں کے خواتین پر عموماً پاکستانی ادبی اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی طرح پاکستان کے لوگ ازبک موسیقی اور مقامی رقص کو پسند کرتے ہیں۔
المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات تاریخی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اعتبار سے گہرے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کو بڑھانے کے لئے مختلف شعبوں میں مشترکہ معاہدے اور اقدامات کرتے رہتے ہیں۔