Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. MIT

MIT

ایم آئی ٹی

ترکیے کی قومی انٹیلیجنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) ترکیے کی حکومت کی طرف سے قائم کی گئی ایک خفیہ ایجنسی ہے۔ اس کا قیام 1926 میں ہوا تھا اور اس کا مقصد ترکیے کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ایم آئی ٹی کو ترکیے کے داخلی اور خارجی معاملات میں وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے بنیادی مقاصد میں ترکیے کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا، ترکیے کے خارجہ تعلقات کو فروغ دینا، ترکیے کی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا، ترکیے کے اندرونی سلامتی کو برقرار رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایم آئی ٹی کی سرگرمیوں میں جاسوسی، خفیہ کاروائیاں، دہشت گردی کے خلاف جنگ، داخلی سلامتی کی نگرانی، خارجہ تعلقات کی نگرانی، معاشی تفتیش شامل ہیں۔ ایم آئی ٹی کی سربراہی ایک ڈائریکٹر جنرل کرتا ہے جسے ترک صدر مقرر کرتا ہے۔ ایم آئی ٹی کے پاس متعدد شعبے ہیں جن میں انٹیلیجنس جمع کرنا، خفیہ آپریشنز، دہشت گردی کے خلاف جنگ، داخلی سلامتی، خارجہ تعلقات اورمعاشی تفتیش کے شعبہ جات ہیں۔

ایم آئی ٹی کا کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایم آئی ٹی کا امریکی سی آئی اے، برطانوی MI6، اور روسی کی جی بی آر سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام ایجنسیوں کے بنیادی مقاصد میں ملکی قومی سلامتی کو یقینی بنانا شامل ہے۔ تاہم ان ایجنسیوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ایم آئی ٹی کو ترکیے کی حکومت کی طرف سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں، جبکہ دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو ان کی حکومتوں کی طرف سے زیادہ نگرانی کے تحت رکھا جاتا ہے۔ ایم آئی ٹی ترکیے کی حکومت کی طرف سے قائم کردہ ایک اہم ادارہ ہے۔ اس کا مقصد ترکیے کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ایم آئی ٹی کو ترکیے کے داخلی اور خارجی معاملات میں وسیع اختیارات حاصل ہیں اور اس کی سرگرمیاں ترکیے کی قومی سلامتی کے لیے اہم ہیں۔

ایم آئی ٹی ترکیے کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی جیو پولیٹیکل پورٹ فولیو اور بڑھتے ہوئے پاور پروفائل کے سرکردہ اداروں میں سے ایک ہے۔ 2010 کے بعد سے ترکیے کے انٹیلیجنس کے طریقوں اور نظریے میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ عرب سپرنگ کے بعدترکیے کو اپنی سیکورٹی اور اسٹریٹجک ماحول میں وسیع تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نئے ابھرتے ہوئے خطرے کی وجہ سے ایک جامع اسٹریٹجک تبدیلی سے گزرنا پڑا۔ جیسا کہ شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات ترکیے کو اہم معاملات میں اپنی ریاستی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا تھا۔

ترکیے نے غیر متوقع خطرات کے جواب میں ایک نئی عسکری اور انٹیلی جنس حکمت عملی اپنائی ہے۔ ملک کی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرےکے طور پر دہشت گرد کاروائیاں سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس کارروائیوں میں مزید وسعت دی۔ انٹیلی جنس کے میدان میں صدر رجب طیب ایردوان کے خارجہ اور سیکورٹی پالیسیوں اور دفاعی صنعت میں انقلابی اقدامات کی نشاندہی کی گئی اور اسی کے مطابق اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو تیار کیا۔

ترکیے خارجہ پالیسی کے غیر فعال سفارت کاری سے ایک فعال سفارت کار میں بدل چکا ہے۔ صدر ایردوان نے ایک انتہائی مؤثر فوجی حکمت عملی کے نفاذ کا آغاز کیا جو ترکیے کو لاحق خطرات کو دور کرے گی اور سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے انقلابی اقدامات کرے گی۔ فوج کے اہم اجزاء میں سے ایک دفاعی صنعت ہےجس میں ترکیے نے بیرونی فنڈنگ پر انحصار کم کرنے اور دفاع کے لیے ایک ایسا نظام قائم کرنے کے لیے قومی منصوبوں کو بڑھایا جس سے ترکیے کی دفاعی صنعت خود کفیل ہوچکی ہے۔ انٹیلی جنس کے میدان میں نافذ کیے گئے انقلابی اقدامات بھی ترکیے کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک طاقت کا ایک اہم جزو بن گئے ہیں۔

ہاکان فیدان حالیہ ترک انٹیلی جنس اصلاحات کی قیادت کر رہے ہیں جس کے کئی اہم پہلو ہیں۔ ان میں سے سب سے پہلے انٹیلی جنس کے اہداف اور اسٹریٹجک مقاصد کی نئی تصویر سامنےآئی ہے۔ ایم آئی ٹی نے بڑی حد تک غیر ملکی انٹیلی جنس پر توجہ مرکوز کی ہے اور اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہےجو ملکی دہشت گردی اور حکومت کو درپیش سیکورٹی خطرات پر اپنی تاریخی توجہ سے ہٹ کر ہے۔ درپیش خطرات کو ہر ممکن حد تک کم کرنے کے لیےترکیے کےسیکورٹی معاملات کے اندر اہم شعبوں اور مسائل میں MIT کے وسائل میں اضافہ کیا گیا جس سے خفیہ کاروائیوں کا جال پھیل گیا ہے۔

ترکیے کے خفیہ نظام کو ایک جامع اور مربوط نقطہ نظر کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنانے کے لیےترقی دوسری جہت ہے۔ اس فریم ورک کے اندرمختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ذمہ داریوں کا از سر نو تعین کیا گیا۔ نتیجے کے طور پر ایک جامع انٹیلی جنس تصویر لینا ممکن ہوگیا۔ ایم آئی ٹی کو نئے حکومتی نظام میں صدر کے ساتھ الحاق کے ذریعے ضم کیا گیا جس سےمختلف انتظامی مسائل میں کمی آئی۔

تیسرا اہم نکتہ ایم آئی ٹی کی تکنیکی صلاحیت میں اضافہ ہے۔ تکنیکی انٹیلی جنس صلاحیت کے علاوہ ترکیے کو درپیش دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر معلومات کے حصول اور آپریشنل برتری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثبت نتائج برآمد کیے ہیں۔ بہتر ڈرون صلاحیتوں نے ایک اسٹریٹجک برتری دی اور ترکیے میں دہشت گردی کو کمزور کیا۔ خاص طور پر داعش، PKK، اور اس کے شامی ونگ YPG کے خلاف جنگ میں واضح برتری حاصل ہوئی۔ خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھنے میں ایم آئی ٹی نے جو کردار ادا کیا اس نے چوتھی اہم تبدیلی کی نمائندگی کی۔ اس وقت ذہانت پر مبنی سفارت کاری بہت ضروری تھی۔

انٹیلی جنس ایک اہم اسٹریٹجک صلاحیت بنتی جا رہی ہے جہاں بین الاقوامی طاقتوں میں مقابلہ تیز ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی نظام ایک جامع تبدیلی سے گزر رہا ہےاور ایک عالمی تنازعہ کے امکانات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر اہم صلاحیت میں ایک اسٹریٹجک انٹیلی جنس صلاحیت ہے جو نہ صرف غیر متناسب اور ہائبرڈ خطرات سے دفاع کر سکتی ہے اور معلومات کے غلبہ کی ضمانت دے سکتی ہے بلکہ مستقبل کے واقعات کی پیش گوئی بھی کر سکتی ہے۔ قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اور عالمی سطح پر ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیےترکیے نے اپنی موجودہ انٹیلی جنس صلاحیت کو بڑھایا ہے۔

بڑھتی ہوئی ریاستی کشیدگی اور تنازعات کے نتیجے میں انٹیلی جنس ایجنسیاں سفارت کاری میں زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ لیبیا، شام، عراق اور کاراباخ جیسے معاملات نے ترکیے کے لیے انٹیلی جنس ڈپلومیسی کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔ موجودہ خطرات کو بے اثر کرنے اور مستقبل کے خطرات کے لیے تیار رہنے کے لیے بڑھتے ہوئے عالمی خطرات اور غیر یقینی صورتحال کے دور میں انٹیلی جنس کے کردار فعال ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ حالت، امریکہ اور چین کی دشمنی سے پیدا ہونے والے تنازعات کے امکانات کے ساتھ ساتھ تکنیکی انقلابات کے ممکنہ تباہ کن اثرات کے پیش نظر ترکیے کی انٹیلی جنس صلاحیتیں بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ اس کی فوجی ڈیٹرنس اور سفارتی حکمت عملی۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Mulazmat Pesha Khawateen Aur Mardana Chauvinism

By Najeeb ur Rehman