Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Hannibal

Hannibal

ہینی بال

ایک طرف رومی فتوحات میں مصروف عمل تھے تو دوسری طرف قرطاجن بھی اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے ادھر ادھر کوششیں کررہے تھے۔ رومی اور قرطاجن کی مہمات کے نتیجے میں ہم قرطاجنہ کو رومیوں کے خلاف ایک روایتی حریف کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ قرطاجن جزیرہ سسلی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور وہاں رومی قدم مضبوط ہوچکے تھےلیکن ہملکار اس جزیرہ کے نعم البدل ہسپانیہ (سپین)میں جگہ بنا چکاتھا۔ یہ معرکہ ایک طرح سے رومیوں کے ہاتھوں شکست کا بدلہ تھا۔

قرطاجنہ کا حکمران ہملکار اپنی تنخواہ دار فوج کے ساتھ ہسپانیہ کو اپنے کنٹرول میں لا چکا تھا۔ ہملکار کی موت کے بعد جانشینی اس کے بھائی ہیدروبال کو میسر آئی اور مہمات کے دوران ہیدروبال کے انتقال کے بعد ہمکار کا بیٹاقرطاجنہ کا تخت نشیں ہوا۔ اس نوجوان کا نام ہینی بال تھاجو رومیوں کےلیے سخت نفرت اور انتقام رکھتا تھا۔ وہ پہلے دن سے ہی رومیوں کو زیر کرنے اور ان سے اپنے علاقے واپس لینے کی ٹھان چکا تھا۔ اس کے حوصلے بلند اور عزم مضبوط تھا۔

فوج کی کمان سنبھالتے ہی ہینی بال ساگنٹم پر قبضے کی غرض سے چڑھائی کرنے کیلئے آگے بڑھا۔ خطہ مذکورہ کے باشندوں نے ہینی بال کی پیش قدمی کے خلاف رومیوں سے مداخلت، مدد اور حفاظت کی درخواست کردی۔ ابھی تک رومیوں کو ہینی بال سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا۔ وہ صرف اس نوجوان کو ایک جگنجوسپہ سالار کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ رومی فتوحات اور کامیابیاں سمیٹتے ہوئے کسی کو بھی اپنے خلاف بڑا خطرہ نہیں سجھتے تھے۔ لیکن ہنی بال رومیوں کو خوب سمجھتا تھا۔ رومیوں سے جنگ اور مہمات کے دوران ایک نئی تاریخ رقم ہونے کو تھی جو ہینی بال کی شکل میں نمودار ہوئی۔

رومیوں نے ہینی بال کو پیغام بھیجا کہ وہ فوراہسپانیہ اور ساگنٹم سے نکل جائے۔ اسی دوران ہینی بال نے ساگنٹم کا محاصرہ کرنا شروع کردیا جس کے بعد پورے کا پورا ہسپانیہ قرطاجنہ کے ریز تسلط آجانا تھا۔ قریبا آٹھ ماہ کے عرصے کے بعد قرطاجنہ کے ہیرو ہینی بال کوساگنٹم کی شکل میں فتح نصیب ہوئی لیکن اس سے یہ بات مکمل طور پرواضح ہوگئی کہ اب ہینی بال اوررومیوں کے درمیان جنگ ضرور ہوگی۔ ہینی بال کو شکست دینے کیلئے رومیوں نے فوجیں تیار کیں اور ہسپانیہ کی جانب رخ کرنے کا ارادہ کیا۔ رومیوں کا گمان تھا ان کا سامناہینی بال سے غالبا ہسپانیہ میں ہوگا۔

تاریخ یورپ میں فن حرب و سپہ گری میں ہینی بال کا کوئی مد مقابل نہیں۔ مورخین اس کے قد کاٹھ اور جنگی حکمت عملی کے معترف ہیں۔ رومیوں کے خلاف جتنے عرصے تک قرطاجنہ کے درمیان جنگ جاری رہی وہ ہینی بال کی دلیری، قابلیت اور اس کے بہتر استعمال کا نتیجہ تھی۔ ہینی بال کے موازنے میں سکندر اعظم، نپولین بونا پارٹ اور جولیس سیزربھی شامل ہیں۔ یہ سبھی جنرلز بھی تاریخ میں ایک مقام و مرتبہ رکھتےہیں لیکن جو کمال فن حرب ہینی بال کے حصے میں آیا وہ ان میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوسکا۔ ہینی بال کے متضاد ان سپہ سالاروں کا واسطہ اپنے سے کمزور حریفوں اور دشمنوں سے پڑا۔ ہینی بال ان سب سے الگ تھا۔ اس نے نہ صرف قرطاجنہ کا مضبوط دفاع کیا بلکہ روما پر متعدد بار حملہ آور بھی ہوا۔ اس عظیم سپہ سالار نے رومیوں کو اس وقت ٹف ٹائم دیا جب وہ اپنے عروج پر تھے۔

رومی فوجیں ہسپانیہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی ہی تھیں کہ ہینی بال نے خود اطالیہ پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ ایک طرح کا سرپرائز تھاجس کی توقع رومی نہ رکھتے تھے۔ رومیوں کو جب اندازہ ہوا کہ دشمن خشکی کے راستے کوہ آلپس کو عبور کر کے ان کے دروازے تک آن پہنچا ہے تو ان کو اپنی فوجیں ہسپانیہ سے واپس بلانا پڑی۔ یاد رہے کہ نپولین اور فرانس کے دیگر جنرلز کوہ آلپس کو عبورکرنےکے دعویدار ہیں لیکن ہینی بال نے اس وقت کے دشوار گزار راستوں اور دروں کو بغیر نقشوں اور محدود جغرافیائی معلومات کےطے کر کےثابت کردیاکہ وہ عظیم جنگجو تھا۔ اس کی فوج میں شامل ہاتھی جو افریقہ کی گرمی کے عادی تھے، ہسپانیہ اور فرانس کی سردیوں میں چل کر اطالیہ تک پہنچ گئے۔

ہینی بال نے جس طرف بھی پیش قدمی کی فتح اس کی مقدر رہی۔ رومیوں کو بار بار شکست ہوتی رہی حتیٰ کہ ان کی جمہوریت (سینٹ) کی کمر ٹوٹ گئی۔ ہینی بال کے ہاتھوں متعدد بار شکست کے باوجود رومیوں نے ان مہمات کو جاری رکھا۔ اور اپنے اس ریکارڈ کو بھی قائم رکھا کہ وہ اپنی شکست کو فتح میں بدل دیتے تھے۔ ایسا صرف اس لیے ممکن تھا کیونکہ رومی جلد ہی بازی پلٹ دینے والی قوم تھی۔ وہ اپنی کمزوریوں پر جلد قابو پالیتے اور فتح حاصل کرلیتے تھے۔

ہینی بال کی فتوحات میں یہ عنصر غالب تھا کہ اسے مزاحمت میں کوئی طاقت نہ روک سکتی تھی لیکن جلد ہی رومیوں نے اس کی کمزوریوں کو بھانپ لیا اور اپنی شکست کا حل ڈھونڈ نکالا۔ وہ جان چکے تھے کہ ہینی بال کو صرف محاصرہ کرنے اور جگہ جگہ محدود جھڑپوں سے پریشان کرنے پر ہی وہ فتح یاب ہوسکتے ہیں۔ محاصروں کے ذریعےرومی ہینی بال کو شکست دینے لگے دوسری طرف ہینی بال کو بار بار مقامی لوگوں سے عدم تعاون اور مداخلت کی وجہ سے کئی بار پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی مشکلات سے اس کی طاقت میں بتدریج کمی ہوتی رہی۔ ایسے میں بغاوتیں بھی ہوتی رہی۔

رومیوں کی ایک تازہ دم فوج جس کی کمان جنرل فسےبیس کے ہاتھ میں تھی ہینی بال کو ہرانے کی غرض سےمقام کنائے پر اکٹھی ہوئی۔ یہ ایک کثیر التعداد فوج تھی جس میں جدت تھی اور اس کے مقابلے میں ہینی بال کی فوج میں روایتی پن کا عنصر غالب تھا۔ لیکن اس جنگ میں بھی رومیوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ جنگ کے اختتام میں صرف چند ہزار رومی فوجی زندہ بچ نکلے۔ اس بدترین شکست نےبھی رومیوں کے عزم کو زیادہ متاثر نہ کیا۔

زاما کے مقام پر ایک بار پھر رومی اور قرطاجن ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے۔ اس دفعہ رومی ہینی بال کے داؤ پیچ اور حکمت عملی کو خوب جان چکے تھے۔ سخت لڑائی کے بعد رومیوں کو فتح نصیب ہوئی اور ہینی بال نے قرطاجنوں کے مشاورت سےشکست تسلیم کرلی اور تاوان کے طور پر اپنے چند علاقے اور جنگی جہاز رومیوں کے سپر د کر دیے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra