12 Rabi Ul Awwal Aur Hamara Ishq e Mustafa
بارہ ربیع الاول اور ہمارا عشقِ مصطفی ﷺ
ربیع الاو ل شریف کا یہ بابرکت، رحمت و فضیلت والا مہینہ جب بھی آتا ہے تو وطن عزیز کے گلی کوچے جشن عیدمیلادالنبی کے سبز جھنڈوں سے سجائے جاتے ہیں اور ہر چھوٹا بڑا نبی مہربان ﷺ سے اپنے عشق و محبت اور عقیدت کے اظہار میں مصروف ومشغول رہنے لگتا ہے۔ فضائیں، گھٹائیں، چرند و پرند غرض ہر شے اپنے طور سے اللہ جل شانہ کی حمد و ثناء خوانی کے ساتھ ساتھ محبوب پاک ﷺ پر درود و سلام کے عظیم الشان اور معصومانہ انداز میں ہدیے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اپنے ہونے کے حقیقت آشنائی سے لطف اٹھاتے ہوئے کائنات کے ہستی کا شکر اور محبت بجا لانے میں مصروف رہتے ہیں۔
محبوب مدنی کی ہستی ایسی عظیم الشان ہستی ہے جن کی برکت سے رب کائنات جل شانہ نے ہر شے کو وجود زندگی بخش دی بلکہ زندگی کو خود زندگی کے وجود سے سرفراز فرمایا۔ لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی نفوس ہیں جو ربیع الاول میں رنگی برنگی قمقموں کے سجاوٹ، لاؤڈ سپیکر پہ نعت خوانی وغیر جیسے عوامل پہ سخت معترض رہتے ہیں۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اختلاف ہر معاشرے کا حسن کہلاتا ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسکا شعور اور ادراک بھی نہایت جہل پروردہ ہے۔
یہاں ہر قسم کااختلاف انا اور ضد کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے جس سے سماجی اور سیاسی زندگی میں اک دوسرے سے بندھے رشتوں کے ڈور کی گرفت ڈھیلی پڑ نا شروع ہو جاتی ہے۔ اور یہی سے ہمارے معاشرے میں موجود علمی شعور کی تصویر ملتی ہے جو نہایت ہی پراگندہ ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا یہ اختلاف اک ذاتی نوعیت کے تصادم کی شکل اختیارکرچکاہے۔ جبکہ ہم سب بحیثیت مسلمان یہ بات اپنی ذہنوں سے قطعاََ حذف کر چکے ہیں کہ "ربیع الاول" کا یہ مہینہ روئے زمین پہ وقت، ساعت، دن اور مہینوں کا وہ شاہکار ساعت، وقت ہے جس میں رب کائنا ت نے اپنے محبوب کو اس روئے زمین پہ مبعوث فرمایا۔
اس مبارک مہینے میں ایسی ہستی کا ظہور ہوا کہ ساری کائنات کا حسن اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ اس مہینے کو دوسروں کی نسبت نمایاں طور پر منایا جائے، اس پہ کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے گھروں، گلیوں اورمحلوں کو بے شک سجا کے رکھیں کیونکہ اسمیں کسی دوسرے کو تکلیف یا ایذاء کا کوئی عنصر موجود نہیں۔ پرمیری ناقص رائے کے موافق ہمیں سب سے بڑھ کر اور اہم اپنے اعمال اور ایقان پہ غور و فکر اور عملی اقدام کرنے چاہیے۔ فقط چند دنوں کے لیے جھنڈے یا قمقموں کے جگمگائے رکھنے پہ عشق کی سند کوئی حاصل نہیں کرسکتا۔ ہم سب کو مجموعی طور پر ہر طرح کے فرقی و اختلافی سوچ کو بالائے طاق رکھ کر درج ذیل میں چند سوال سامنے رکھتا ہوں ان سب پہ ہمیں غور و فکر کرنی چاہیے اور خود سے ان کے جواب پوچھنے ہیں۔
(الف) کیا ہم سب واقعی عاشق رسول ﷺ ہیں؟
(ب) کیا ہم واقعی میں عشق کے رموز پہ پورا اترتے ہیں؟ یا پھر مری طرح عشق کے ہجوں تک سے نا واقف و نا بلد ہیں۔
(ج) اگرہم واقعی میں عشقِ رسول ﷺ کے دعوے دار ہیں تو ہمارا یہ دعویٰ کتنا سچا ہے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کیا ہے؟
(د) کیا یہ سچ نہیں کہ ہم پہ محفل میلاد یا محفل سماع کا اثر اتنا ہی پڑا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب نے اچھا بیان کیا یا نعت پڑھی بس۔ کبھی اُس کے اندر اتر کر اسکے مفہوم کو نہ جاننے کہ کوشش کی ہوتی ہے اورنہ عملی طور پر اپنانے کی۔
(ر) کیا اسلام میں عشق رسول ﷺ کا معیار و پیمانہ یہی مقرر کیا گیا ہے؟ کہ بس محفل میلاد و سماع کو منعقد کرنا کچھ بیان اورنعتیں پڑھ کر، لنگر کھا کر واپس اپنے اسی دنیاوی سنت سے بلکل برعکس زندگی میں مشغول و مصروف ہوجاناکیایہی ہے عشق کا تقاضا؟ کیا یہی ہے میلاد اور ربیع الاول کی قدر و منزلت کرنا؟
(ز) جلوسوں کی صورت میں گھرو ں سے نکل کر دوسرے لوگوں کی نقل وحرکت کو روک دینا یا اسکے بہاؤ میں ٹھہراؤ کا سبب بن جانا۔ کیا یہ کسی طور سے عشق کے اوصاف پہ اترتا ہے؟
(ل) کیا عشق رسول ﷺ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کسی دوسرے انسان کو اذیت پہنچانے کا احتمالی سبب بھی بن سکتا ہے؟ تو یہ ہم کس عشق کے کیسے دعوے پھر کر رہے ہیں؟
م) کیاگاڑیوں میں لاؤڈ سپیکرز پر، مسجدوں میں کسی بھی وقت بے جا نعتوں کا سماع باندھ کر اڑوس پڑوس میں رہنے والوں کے لیے صوتی شور سے اذیت کا سبب بننا عشق کے رموز میں آتا ہے؟ جبکہ حکم تو یہ ہے کہ کوئی بندہ پاس میں سویا ہو تو وہاں اونچی آواز میں تلاوت بھی کرنا ممنوع ہے تاکہ اسکی نیند میں خلل نہ پڑجائے۔ لیکن میں اپنے علاقے میں اس صوتی طوفان کو کئی بار ملاحظہ کرچکا ہوں اور اس میں لاوڈ سپیکروں کی آواز اللہ کی پناہ۔
یاد رہے یہی اصول شادی بیاہ میں اپنانا اس سے کہیں زیادہ لازم و ملزوم ہے کیونکہ وہاں تو میوزک بجایا جاتا ہے اور وہ توہے ہی حرام کام۔ اور پھر آج کل میں پڑھے جانے والے نعت اور انکے ادھن و آہنگ سننے سے بے اختیار زبان پہ گانے کے بول آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ محفل نعت اور سماع کے انعقاد کو بھی اب ذریعہ معاش بنایا جاچکا ہے۔ اور معاش کا اصول ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے اور دکھنے و بکنے کے اصول ہر کام میں جدیدیت کا متقاضی ہوتاہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں محفل میلاد اور نعت خوانی اسی جدیدیت کا شکا رہو چکے ہیں۔
اور پھر ناجانے کتنے پاونڈ کے بڑے بڑے کیکوں کو کاٹا جانا یہ کس قسم کا میلاد ہے؟ یہ کیسا عشق ہے؟ اور اگر یہی تقاضا عشق رسول ﷺ اور ربیع الاول ہے تو پھر ہم اختلاف انفرادی طور پر پہ ذاتی جنم دن (برتھڈے) منانے سے کیوں کر کرتے ہیں؟ ہم پھر میری کرسمس کو برا کیوں کہتے ہیں؟ کیونکہ یہی کچھ تو وہ بھی کرتے ہیں؟ کیا ہمیں نہیں لگتا کہ ہم اصل ادب اور عشق رسول ﷺ و ربیع الاول کو مکسکررہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنا منانے کا طریقہ اعلی ارفع و پاک اور منفرد رکھنا نہیں چاہیے؟ جو موجودہ مروج طریق سے قدرے مختلف اور منفرد ہے۔
اس آخری بات کو ذہن میں رکھ کر محبوب پاک ﷺ کی حدیث پاک یاد آئی، "لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو محبوب پاک ﷺ نے فرمایا وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔ (صحیح بخاری: باب ایمان)
اس حدیث پاک کو پڑھ لینے کے بعد کیا اب بھی ہمیں یہی لگتا ہے کہ روڈ پہ نکل کر جلوسوں کا انعقاد عشق رسول ﷺ ہے؟ اگرہم سچے دل سے اور ایمان سے ان سوالوں کے جواب خود سے پوچھیں تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں ایسا کوئی جواب نہیں ملے گا جو عشق کے پیراہوں میں ان سوالوں کو مثبت انداز میں پروتاہو۔ ہم اس بناوٹ سے کس کو دھوکہ دے رہیں؟
مری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں اس برکت والے دن مسجد، گھر اور حجرے کے اندر بیٹھ کر محفل میلاد و سماع منعقد ایسے انداز میں کرنے چاہیے کہ آواز بس چاردیواری کے اندر ہی رہے۔ پورے محلے اور پورے شہر کو سر پہ اٹھانے کی قطعا مطلب اعلی قسم کے عشقی سند حاصل کرنا نہیں ہے۔ اور بالخصوص اس دن روزہ رکھنا ہی در اصل عین سنت کے موافق میلاد منانا ہے جو کہ حبیب پاک ﷺ از خود فرماتے تھے۔
حضرت واصف علی واصف علیہالرحمہ نے فرمایا تھا، "ادب کے بغیر محبت اور محبت کے بغیر ادب دونوں بے معنٰی ہے"۔ تو عشق کے درجے پہ پہنچنے کے لیے جلسوں، محافل، قمقموں یا جھنڈوں کی نہیں اعلیٰ پائے کا ادب سیکھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور ادب یہ نہیں کہ محبوب کا نام سن کر درود پاک پڑھی جائے وہ تو عین واجب ہے۔ ادب یہ ہے کہ محبوب پاک ﷺ کے تمام سنتوں کو بساط بھر کوشش کے موافق اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، اور یہ محبت کے بغیر ممکن نہیں۔
یاد رکھیں جہاں ادب رہے گا وہاں محبت لازمی ہوگی اور جہاں محبت ہوگی وہاں ادب کا وجود حاضر رہے گا۔ اور عشق تو محبت کے چوٹی پہ پہنچنے کے بعدہی شروع ہوتا ہے۔ جب ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، غرض ہر لمحہ و ہر کروٹ جب رسول پاک ﷺ کے سنت کے مطابق ہو جائے گا تب ہم محبت کے راہ کے مسافر بن جائیں گے جسکے آخری سرے سے عشق کا سفر شروع ہوتا ہے۔
یوں روڈوں پہ جلوسوں کی صورت میں نکل کر دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف اور ایذاء کا سبب بننا عشق نہیں بلکہ تضحیکِ عشق ہے۔ ہمیں اپنے نفس کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ حقیقی میلاد تو یہ ہے کہ اپنے عملی زندگیوں میں اس کردار و اخلاق کو اپنائیں جس کی وجہ سے دشمن بھی آپ ﷺ کو صادق و آمین ماننے پہ مجبور ہوگئے تھے۔
اللہ کرے یہ باتیں ہماری سمجھ و عمل میں آجائے۔