Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Karbala Dar Karbala, Aik Na Tamam Azeem Novel Ka Fikri Muqadma

Karbala Dar Karbala, Aik Na Tamam Azeem Novel Ka Fikri Muqadma

کربلا در کربلا، ایک ناتمام عظیم ناول کا فکری مقدمہ

گوری ناتھ کا ہندی ناول کربلا در کربلا محض ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ ایک فکری اور جذباتی آزمائش ہے، جسے پڑھنا صرف وہی قاری برداشت کر سکتا ہے جو نہ صرف ادب بلکہ سچائی کے ساتھ بے باکی سے جُڑا ہوا ہو۔ یہ ناول ہمیں 1989ء کے بھاگلپور فسادات کے پس منظر میں لے جاتا ہے، مگر اس کا فکری اور معنوی کینوس محض اس ایک سانحے سے محدود نہیں، بلکہ یہ ہندوستانی معاشرے کی گہرائیوں میں چھپے نسلی، مذہبی، معاشی اور سیاسی تضادات کو پوری قوت سے بے نقاب کرتا ہے۔ بھاگلپور، جو کبھی "سلک سٹی" یعنی "ریشم نگر" کہلاتا تھا، اس ناول میں "ماسکر سٹی" یعنی "قتلام نگر" بن کر سامنے آتا ہے اور یہ تبدیلی صرف ایک جغرافیائی یا تہذیبی سچائی نہیں بلکہ ایک روحانی اور تہہ در تہہ المیہ ہے، جو پورے ہندوستان کی اجتماعی نفسیات پر سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہوتا ہے۔

گوری ناتھ کا بیانیہ ایک روایتی کہانی نہیں بلکہ ایک مسلسل فریاد ہے، جو زہر آلود ہواؤں، سیاسی چالاکیوں اور انسانیت کی پامالی میں دبے ہوئے سچ کو لفظوں میں ڈھالتا ہے۔ مرکزی کردار "شو" کی زندگی اس فضا میں پنپتی ہے جہاں انسان اپنی شناخت، محبت اور عقیدے کے لیے خونی قیمت ادا کرتا ہے۔ اس کردار کی زرینہ سے محبت ہو یا مدھو اور ستبیر سنگھ کی بین المذاہب رومانوی داستان، دونوں علامتی سطح پر ایک ایسے معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں جو نفرت کی فصل کاٹ رہا ہے اور محبت کے بیج بونے والوں کو روند رہا ہے۔ شو کی زندگی، اس کے اطراف کے واقعات، گاؤں میں کسان کی پراسرار موت، محبت کرنے والوں کو زندہ جلانے کے واقعات، سب اس بات کی گواہی ہیں کہ مذہب، ذات پات اور سیاست کا گٹھ جوڑ ایک فرد کی ذاتی زندگی کو بھی کس طرح روند سکتا ہے۔

اسی طرح مسلمانوں کی معاشی برتری — بھاگلپور کی جولاہا برادری، ان کے ہنر، زمینوں پر ملکیت اور کاٹیج انڈسٹری میں بالادستی — کس طرح ہندو اکثریت کے اندر چھپے ہوئے خوف، حسد اور جارحیت کو سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں ہتھیار میں بدل دیتی ہے، اس کی تصویر کشی اس ناول میں نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں کی گئی ہے۔ کمیونلزم، جات واد اور فرقہ پرستی کے اس زہر کو کیسے ریاستی مشینری، کانگریس، بھاجپا، آر ایس ایس اور ویشوا ہندو پریشد مل کر پروان چڑھاتے ہیں، یہ ناول ان سب کو نہایت بےباکی سے آشکار کرتا ہے۔ تہوار، جو کسی زمانے میں یکجہتی کی علامت تھے، یہاں فساد کا پیش خیمہ بن کر سامنے آتے ہیں اور یہی وہ تبدیلی ہے جو ناول کی سب سے خراش دار مگر لازمی پرت ہے۔

تاہم، فنی اعتبار سے ناول میں ایک ایسی کشمکش موجود ہے جو بیانیے کو متاثر کرتی ہے۔ گوری ناتھ خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ فکشن اور نان فکشن کے درمیان آتے جاتے رہے، لیکن یہی آنا جانا بعض مقامات پر بیانیے میں وہ خشکی پیدا کرتا ہے جو ایک صحافتی رپورٹنگ کی سی تاثر دیتی ہے۔ فکشن میں دستاویزیت کوئی عیب نہیں، بلکہ اسے فنی طور پر سمیٹنا ہی اصل مہارت ہے۔ اروندھتی رائے کے ناول The Ministry of Utmost Happiness میں، خاص طور پر باب "Landlord" میں، جس انداز سے انہوں نے ایک لغت کی طرز پر سچائیوں کو سمویا، وہ تکنیکی چابکدستی کربلا در کربلا میں محسوس نہیں ہوتی۔ یہاں فکشن کی جگہ کہیں کہیں "نان فکشن" حاوی ہو جاتا ہے اور یہی اس ناول کی سب سے بڑی تخلیقی کمزوری ہے۔

ترجمے کے باب میں اس ناول کو اردو میں منتقل کرنے کا کارنامہ شیراز حسن نے سرانجام دیا، جو خود بھی ایک حساس صحافی ہیں۔ ان کا ترجمہ ناول کے جذباتی اور سیاسی وزن کو اردو قارئین تک مؤثر طریقے سے پہنچاتا ہے، مگر افسوس کہ "آج" پبلیکیشنز اور ناشر اجمل کمال کی روایت مترجم کو حاشیے پر دھکیلنے کی رہی ہے۔ اجمل کمال کا ترجمہ پر کوئی تعارفی نوٹ نہ دینا، مترجم کو نام نہ دینا اور معاوضہ نہ دینا — یہ سب وہ روشیں ہیں جو اردو دنیا میں ترجمے کے عمل کو ایک غیر مرئی اذیت بنا دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے مترجم کا وجود محض ایک ذریعہ ہو، جسے استعمال کیا جا سکتا ہے مگر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

ان تمام فکری، ادبی اور سماجی جہتوں کے باوجود، یہ ناول ایک مکمل اور آخری تخلیق کے بجائے ایک ایسے عظیم ناول کی ابتدائی جھلک محسوس ہوتا ہے جو ابھی تشکیل کے عمل سے گزر رہا ہے۔ گوری ناتھ اگر کبھی اس ناول کو دوبارہ لکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ممکن ہے کہ وہ ہندی ادب میں ایک ایسے ناول کے خالق بن جائیں جو اپنے کینوس، تھیمز اور فکری عمق میں بے مثال ہو۔ جیسا کہ رحمان عباس نے اپنے ناول ایک ممنوعہ محبت کی کہانی کو ری رائٹ کرکے ایک اور طرح کا پاگل پن تخلیق کیا، ویسا ہی تخلیقی احیاء کربلا در کربلا کے لیے بھی ممکن ہے۔ شاقع قدوائی جیسے گہر بین نقاد بھی اس ناول کے اندر پوشیدہ امکانات کی طرف، اگرچہ دبے لفظوں میں، مگر واضح اشارے دیتے ہیں۔

آخر میں، کربلا در کربلا کو صرف ایک ناول سمجھنا اس کی توہین ہوگی۔ یہ ایک احتجاج ہے، ایک اعلان ہے اور شاید ایک سوال بھی — کہ کیا خاموشی، تماش بینی اور ادب کی کوتاہ نظری کسی معاشرے کو اس کی اجتماعی تباہی سے بچا سکتی ہے؟ یہ ناول بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ گلیوں، جسموں اور رشتوں پر لکھی جاتی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

گوری ناتھ کا ناول کربلا در کربلا ایک فکری اور جمالیاتی سطح پر انتہائی چیلنجنگ مگر فکری طور پر بیدار قاری کے لیے پُراثر تجربہ ہے۔ اس کے بیانیے اور موضوعات کی شدت، علامتی گہرائی اور سماجی تنقید اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اس کی اصل جان اس کی ہئیت، تکنیک، اسلوب اور ڈرافٹنگ میں پنہاں ہے — جو بظاہر بے ساختہ دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے اندر ایک خام مگر خالص سچائی کی صداقت بکھری ہوئی ہے۔

***

ہئیت: ناول، لیکن خالص نہیں

کربلا در کربلا کی ہئیت تکنیکی اعتبار سے ایک روایتی ناول کی ہے، مگر اس کا اندرونی اسٹرکچر اور اس کا بیانیہ کلاسیکی ناول کے معیارات سے مختلف، بلکہ ان سے انحراف پر مبنی ہے۔ روایتی طور پر ناول ایک متعین پلاٹ، کرداروں کی ارتقائی ساخت اور بیانیے کی تدریجی روانی کا تقاضا کرتا ہے، مگر گوری ناتھ یہاں ان دائروں سے باہر نکل کر ایک نیم دستاویزی (semi-documentary) انداز اختیار کرتے ہیں۔ ناول فکشن کی ایک ظاہری شکل میں موجود ہے، لیکن اس کے بیچ بیچ میں حقائق کی اس قدر واضح، غیر مبہم اور خالص صحافتی یا تحقیقی طرز پر پیش کش ہوتی ہے کہ وہ اسے کسی جگہ ناول کی حدود سے نکال دیتی ہے۔ گوری ناتھ خود پیش لفظ میں اس کشمکش کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ فکشن اور نان فکشن کے درمیان آتے جاتے رہے۔ یہی ہچکچاہٹ ناول کی ہئیت کو غیر روایتی بناتی ہے — جسے بعض قاری اس کی کمزوری جبکہ بعض اس کی انفرادیت کہہ سکتے ہیں۔

***

تکنیک: نیم بیانیہ، نیم تجزیہ

تکنیکی اعتبار سے گوری ناتھ نے کہانی بیان کرنے کی جو راہ اپنائی ہے، وہ سیدھی اور خطی (linear) نہیں بلکہ تہہ در تہہ اور موضوعاتی ہے۔ ناول میں فلیش بیک، استعارہ، علامت اور حقیقت نگاری سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کرداروں کی زندگیوں کو وہ الگ سے ڈرامائی انداز میں پیش نہیں کرتے بلکہ معاشرتی پس منظر کے ایک بڑے منظرنامے کے اندر سمو دیتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار "شو" اور اس کے گرد گھومنے والے افراد نہ صرف کردار ہیں بلکہ اس نظام کے خلاف استعارہ بھی ہیں، جس نظام نے بھاگلپور کو خون میں نہلایا۔

تاہم، یہاں تکنیکی اعتبار سے ایک ابہام بھی موجود ہے — گوری ناتھ کا بیانیہ کبھی ایک کہانی کی شکل اختیار کرتا ہے اور کبھی براہ راست مصنف کی آواز میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو خود قاری سے مکالمہ کرتا ہے، وضاحتیں دیتا ہے، حوالہ جات دیتا ہے اور بیانیے کی ایک قسم کی تجزیاتی فضا تخلیق کرتا ہے۔ یہ تکنیک بلاشبہ طاقتور ہو سکتی تھی اگر اسے کہیں کہیں محدود رکھا جاتا، لیکن اس کے بار بار استعمال سے بیانیہ ایک تسلسل کی بجائے، معلوماتی بلاک کی صورت اختیار کرتا ہے۔

***

اسلوب: چیختا ہوا، سادہ مگر جذبات سے لبریز

گوری ناتھ کا اسلوب نہایت سیدھا، صاف اور جذباتی ہے۔ ان کی زبان میں کوئی ادبی بناوٹ نہیں، نہ ہی وہ فصاحت و بلاغت کے خوشنما جملوں کے پیچھے چھپتے ہیں۔ ان کا ہر جملہ ایک زخم کی مانند ہے — جس کا مقصد قاری کو سنوارنا نہیں بلکہ جھنجھوڑنا ہے۔ اس سادگی میں جو شدت ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ مگر یہ شدت بعض اوقات اسلوب کو سپاٹ پن کی طرف بھی دھکیلتی ہے۔ مثلاً کئی جگہوں پر وہ ایک ہی نوعیت کے واقعات اور جذبات کو بار بار دہراتے ہیں اور اس تکرار سے اسلوب کا بہاؤ رک سا جاتا ہے۔

پھر بھی، اس ناول کا اسلوب اپنی شدت، سچائی اور جذبۂ احتجاج کی بدولت ایک مخصوص "زبان" خلق کرتا ہے — جو شاید ادبی لغت میں جمالیاتی نہ ہو، مگر حقیقت کی زمین پر بے حد قوی ہے۔

***

ڈرافٹنگ: ایک خام مگر صداقت خیز مسودہ

کربلا در کربلا کا موجودہ متن بلاشبہ ایک مکمل اور حتمی ڈرافٹ کی بجائے ایک ابتدائی اور جذباتی لمحوں میں تیار کی گئی دستاویز محسوس ہوتا ہے۔ واقعات کی کثرت، کرداروں کی کثیرالجہتی اور سیاسی تجزیات کا انضمام ایک مربوط ڈھانچے میں نہیں، بلکہ ایک جاری عمل کے تاثر میں سامنے آتا ہے۔ ناول کا آغاز، وسط اور انجام کسی روایتی narrative arc پر مبنی نہیں بلکہ مختلف بیانیوں کی ہمہ وقتی برسات جیسا ہے، جس میں قاری کو خود توازن اور مرکز تلاش کرنا پڑتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں گوری ناتھ کو تخلیقی ایڈیٹنگ، ڈرافٹ کی تشکیل نو اور بیانیے کی تراش خراش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر اس ناول کو ازسر نو تحریر کیا جائے، اس کے غیر ضروری اعادہ کو کم کیا جائے، دستاویزی مواد کو تخلیقی تکنیک سے جذب کیا جائے اور بیانیے کو فنکارانہ تناسب دیا جائے تو یہ ہندوستانی ادب کے عظیم ناولوں کی صف میں جگہ بنا سکتا ہے۔

***

نتیجہ: ناول یا احتجاج؟

کربلا در کربلا کی ہئیت، تکنیک، اسلوب اور ڈرافٹنگ مل کر ایک ایسے ادب کو جنم دیتے ہیں جو جمالیات کی روایتی تعریفوں سے باہر ہے، مگر اپنے اندر وہ اخلاقی اور انسانی کرب رکھتا ہے جو کسی بھی بڑی تخلیق کی اساس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا متن ہے جو خود کو بار بار تعمیر کرنے کا متقاضی ہے — جیسے کوئی ناتمام مجسمہ، جو اپنے مجسمہ ساز کی دوبارہ توجہ کا منتظر ہے۔ یہ ایک مکمل ناول نہیں، بلکہ ایک بہت بڑے ناول کا ادھورا ڈرافٹ ہے — مگر اس ادھورے پن میں جو سچائی ہے، وہ بعض مکمل اور شاندار ناولوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔

***

کربلا در کربلا کو ازسرِنو لکھنے کی ضرورت محض ایک تخلیقی تجویز نہیں، بلکہ یہ ایک ادبی ناگزیرت ہے۔ یہ ناول اپنے موضوعات، بیانیہ اور اثر انگیزی کے اعتبار سے اس درجہ گہرائی اور وسعت کا حامل ہے کہ اس کے موجودہ ڈرافٹ میں سمٹنا نہ تو اس کے موضوع کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی اس کے قاری کے ساتھ۔ گوری ناتھ نے جن زمینی، تاریخی اور ثقافتی حوالوں کو برتا ہے، ان کی شدت، پیچیدگی اور وسعت خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ان کے بیانیہ کو زیادہ منظم، تہہ دار اور فنکارانہ طور پر مربوط صورت میں پیش کیا جائے۔

***

ری رائٹنگ کی ضرورت: کیوں؟

گوری ناتھ نے اس ناول کو لکھتے ہوئے ایک شدید جذباتی اور فکری کیفیت میں مختلف سطحوں کے مواد کو جمع کیا — فسادات، ذات پات، معاشی تفریق، بین المذاہب محبتیں، ریاستی سازشیں، تہواروں کی فرقہ وارانہ رنگت، صحافت کا کردار — مگر ان تمام جہات کو ایک نظم و ضبط کے تحت، ایک فنکارانہ پیکنگ میں پرو کر پیش کرنا وہ چیلنج ہے جو ان سے ابھی مکمل طور پر نبھایا نہیں جا سکا۔ موجودہ متن میں ایک تحریکی قوت تو ہے، مگر وہ بارہا دستاویزی دباؤ کے نیچے دب جاتی ہے۔

ری رائٹنگ کے عمل میں نہ صرف بیانیے کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے، بلکہ ایک نیا فریم ورک درکار ہے — ایسا فریم ورک جو ناول کو فکشن کی اصل روح میں واپس لے جائے اور دستاویزیت کو تخلیقی قالب میں ڈھال دے، نہ کہ اسے بے لچک بیانیہ میں چھوڑ دے۔

***

ممکنہ ری وِژن کی جہتیں:

1۔ ساختی تنظیم (Structural Reworking):

موجودہ ناول میں واقعاتی ترتیب خطی نہیں ہے، جس کا اثر اس کے تاثر پر پڑتا ہے۔ اگر گوری ناتھ بیانیے کو واقعاتی اور جذباتی ارتقا کے ساتھ ترتیب دیں تو قاری کے لیے کرداروں اور حالات سے جڑنا آسان ہو جائے گا۔

2۔ کرداروں کا ارتقا (Character Arc):

شو، زرینہ، مدھو، ستبیر اور رگھونندن جیسے کرداروں میں علامتی طاقت تو ہے، مگر ان کا ارتقا اکثر تیز، غیر متوازن یا نامکمل محسوس ہوتا ہے۔ ری رائٹنگ میں ان کرداروں کو جسمانی، نفسیاتی اور نظریاتی جہتوں کے ساتھ سنوارنا ضروری ہے، تاکہ وہ ناول کے بیانیے کو سہارنے والے ستون بن سکیں۔

3۔ زبان اور اسلوب کی تراش خراش:

موجودہ اسلوب شدت اور احتجاج سے لبریز ہے، مگر بارہا یکسانیت اور تکرار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر اس اسلوب کو ادبی کفایت کے ساتھ، علامتی زبان اور تخیلی قوت کے امتزاج سے نکھارا جائے تو یہ اس ناول کو ایک نئے فکری و جمالیاتی مقام تک لے جا سکتا ہے۔

4۔ متوازی بیانیوں (Parallel Narratives) کا مربوط انضمام:

موجودہ متن میں کئی ذیلی بیانیے ہیں — کسان کی موت، انٹرا ریلجن شادی، مسلمانوں کی معاشی بالادستی، تہواروں کی فرقہ واریت — مگر یہ تمام بیانیے مرکز کے ساتھ جڑنے کی بجائے الگ الگ پرتوں کی شکل میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ری رائٹنگ میں ان تمام بیانیوں کو ایک نیرنگ مگر مرکزی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔

5۔ ادبی تکنیک کا نفاذ:

جیسا کہ اروندھتی رائے کے ہاں ہم دیکھتے ہیں، گلوسری، کولاژ، مکالماتی بیانیہ اور مختلف بیانیہ سطحوں کی شعوری آمیزش، فکشن کو ایک نیا جمالیاتی تجربہ بنا دیتی ہے۔ اگر گوری ناتھ ان تکنیکوں کو اپنا کر نان فکشن مواد کو ایک فنکارانہ فریم میں سمیٹیں تو یہ ناول نئی بلندیوں تک جا سکتا ہے۔

***

پوٹینشل: ایک نیا کلاسک بننے کی صلاحیت

کربلا در کربلا کے بیچوں بیچ ایک نیا عظیم ہندوستانی ناول چھپا ہوا ہے۔ اس ناول میں جو موضوعاتی کثافت، تاریخی درد اور سماجی صداقت ہے، وہ ہندی ادب کو ایک ایسا فکشن فراہم کر سکتی ہے جو نہ صرف ہندوستانی سماج کی المیے کو بیان کرے بلکہ عالمی ادبیات میں اپنی جگہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہو۔

اگر گوری ناتھ اسے ری رائٹ کرتے ہیں، تو یہ ناول اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ویسا ہی مقام حاصل کر سکتا ہے جیسا مہاشویتا دیوی، اننت مورتے، یا اروندھتی رائے کی تحریروں کو حاصل ہے۔ یہ ناول اپنے وقت کی دستاویز بھی ہے اور اس کی تعبیر بھی۔ اس میں اتنی گنجائش ہے کہ اس سے ایک دو یا تین جلدوں پر مشتمل فکشن سیریز بھی تیار کی جا سکتی ہے، ہر جلد ایک مخصوص بیانیہ پرت یا زمانی دور کو کور کرتی ہوئی۔

***

حرفِ آخر: ایک ناتمام خواب جسے مکمل ہونا ہے

کربلا در کربلا کا موجودہ مسودہ ایک ناتمام خواب کی مانند ہے — جس کی آنکھیں کھلی ہیں مگر تعبیر دھندلی ہے۔ یہ ناول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بعض تخلیقات اپنی ابتدائی شکل میں مکمل نہیں ہوتیں، بلکہ وہ مصنف کو بار بار واپس بلاتی ہیں — تاکہ وہ ان کے خدوخال کو زیادہ شفاف، زیادہ مربوط اور زیادہ جاندار بنا سکیں۔ گوری ناتھ کے اس ناول میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو ایک بڑے فکشن کو جنم دے سکتے ہیں، صرف اسے تخلیقی صبر، فکری تنظیم اور ادبی جرات کی ضرورت ہے۔

اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو کربلا در کربلا نہ صرف ایک ناول ہوگا، بلکہ ایک ادبی واقعہ بن جائے گا — ایسا واقعہ جو صرف ایک شہر یا وقت کے فسادات کا نہیں، بلکہ ہندوستانی انسانیت کے ضمیر کا بیان ہوگا۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood