Sirajan Muneera
سِرَاجًا مُّنِيۡرًا ﷺ

يٰۤ اَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِاِذۡنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيۡرًا۔
اے نبی ﷺ! یقیناََ ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔ (سورہ الاحزاب)
سورہ الاحزاب کی اس آیت 45-46 میں اللہ کریم نے آقاﷺکی 5 صفات بیان فرمائی ہیں یا آپ کی پانچ وہ امور بیان فرمائے ہیں جو آپ نے تا قیامت ادا فرمانے ہیں۔ ان میں آخر صفت بہت عجیب بیان فرمائی گئی ہے۔ (سِرَاجًا مُّنِيۡرًا) یہ عجیب کیوں ہے۔ اس کے معنی سمجھنا بہت ضروری ہیں۔
تقریباََ اکثریت مفسرین اور اہل ترجمہ نے سراج کے معنی (چراغ، روشن چراغ) اور قران میں سورج کو دو مقامات پر سراج کہہ کر سراج کے معنی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ایک سورہ نوح میں وَ جَعَلَ الُقَمَرَ فِيُهِنَّ نُوُرًا وَّ جَعَلَ الشَّمُسَ سِرَاجًا [نوح: 16] اور اس نے ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنا دیا اور دوسرا مقام سورہ النبا [وَ جَعَلُنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا] اور ہم نے ایک بہت روشن گرم چراغ بنایا۔
اب سراج کے معنی ایسا چراغ جو خود سے روشنی پیدا produce کرتا ہو۔ جیسے سورج یا سورج کی طرح کے جلتے ستارے۔ اب ان ستاروں میں کچھ نئے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی روشنی اپنی عمر کے لحاظ سے نیلی، سفید، پیلا، اورنج اور سرخ ہیں نیلے کم عمر، سفید جوان، پیلے ادھیڑ عمر اور اورنج بوڑھے ستارے جبکہ سرخ مرتے ہوئے ستاروں کی روشنی ہے۔
ہمارا سورج اپنی آدھی ھی عمر گزار چکا ہے۔ جو کہ قریب ترین آنے والے چند ارب (لگ بھگ 5 ارب سال) رہتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ اس کے بعد اب بوڑھا ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر کسی چیز کو صرف سورج سے تشبیہ دی جائے تو اس میں زوال ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے ستاروں، سورج اور چاند کے بارے میں فرمایا تھا کہ۔
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیُهِ الَّیُلُ رَاٰ كَوُكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الُاٰفِلِیُنَ(76)فَلَمَّا رَاَ الُقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنُ لَّمُ یَهُدِنِیُ رَبِّیُ لَاَكُوُنَنَّ مِنَ الُقَوُمِ الضَّآلِّیُنَ(77)فَلَمَّا رَاَ الشَّمُسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیُ هٰذَاۤ اَكُبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتُ قَالَ یٰقَوُمِ اِنِّیُ بَرِیُٓءٌ مِّمَّا تُشُرِكُوُنَ(78انعام)
ترجمہ: پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔ پھر جب دیکھا سورج کو بہت چمکدار تو کہنے لگے ہاں یہ ہے میرا ربّ یہ سب سے بڑا ہے! پھر جب وہ بھی غائب ہوگیا تو انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! میں اعلان براءت کرتا ہوں ان سب سے جنہیں تم شریک ٹھہرا رہے ہو۔
لہذا جن کی نبوت یوم حشر کے بعد بھی رہنا ہے۔ ان کے لئے کسی ایسی چیز کی مشابہت رب کریم نہیں دین گے جسے زوال ہو۔ لہذا سراج کے ساتھ "منیر" کا اضافہ فرما دیا۔ منیر کے لغوی معنی ہیں (روشنی دینے والا، چمکنے والا، (مجازاً) خوشنما، روشن، روشن کرنے والا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام بھی ہے) (ریختہ ڈکشنری) صفاتی نام کیونکر ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ منیر، منور کا اصل ماخذ "نور" ہے۔ اب نور کو سمجھانے کے لئے اللہ کریم نے چاند کی روشنی کی مثال بیان فرمائی جیسے "هُوَ الَّذِیُ جَعَلَ الشَّمُسَ ضِیَآءً وَّ الُقَمَرَ نُوُرًا"۔ (یونس: 5)
ترجمہ: وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بنایا۔
یہاں "منیرا" سے اگر چاند کی روشنی لی جائے تو وہ سورج کی تجلی کی محتاج ہے اور دونوں ایک وقت میں نہیں چمکتے جب سورج نہ ہو تو چاند اس کی روشنی سے روشنی لے کر روشن کرتا ہے جو بھلے سے ٹھنڈی اور میٹھی ہے مگر وہ اندھیروں (ظلمات) کو دور نہیں کرتی۔ اسے بھی فنا ہے اور اس روشنی میں نقص ہے۔
کچھ مفسرین نے چاند کو نبی کریم ﷺ سے نسبت دی ہے کہ وہ رب کے نور کو مخلوق پر منعکس کر رہے ہیں۔ جو تشبیہ تو خوبصورت ہے مگر نبی کریم ﷺکے شایان شان نہیں ہے۔ لہزا رب نے خود تشریح فرما دی کہ آپ کریمﷺکی ذات اقدس وہ ہے جس سے خود نور پھوٹ رہا ہے اور آپ نور کی تمام مخلوق کا بھی سورج ہیں جس سے تمام نورانی مخلوق چاند کی ماند روشنی پاتا ہے۔ جس طرح زمین اور نظام شمسی کا ستارہ سورج ہے جس سے تمام نظام شمسی کے چاند منور اور سیارے اپنی اپنی روشنی منعکس کر رہے ہیں۔
مریخ سرخ، زمین نیلی اور مرکری چمک و روشن اسی طرح اللہ کریم نے اپنی مخلوقات پر نور کا ایک سورج تخلیق فرمایا ہے۔ جسے چمکتا ہوا روشن چراغ (سراج منیرا) کہہ کر خطاب فرمایا اور اس نور کے سورج سے اللہ کی تخلیق، لوح وقلم، فرشتے، انسان جنت اور حتیٰ کہ میدان حشر اپنا اپنا نور سمیٹ رہے ہیں اور یہ روشنی ان پر منعکس ہو کر انہیں منور فرما رہی ہے۔
اسی لئے تو اس نور کی مثال اللہ رب العزت نے یوں فرمائی، ترجمہ: اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وه چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وه تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے، نور پر نور ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے، لوگوں کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ (سورہ النور 35)
اور یہ سِرَاجًا مُّنِيۡرًا ﷺ اللہ کریم کی تمام مخلوق پر رحمت ہیں، نہ اللہ کی رحمت کو زوال ہے اور نہ اللہ کے نور کو فنا، یہ ہی دراصل حدیث نور کی اصل تشریح ہے۔ یعنی رب کریم نے اپنی مخلوقات میں جسے بھی نور سے تخلیق فرمایا یا نور عطا فرما رہے ہیں۔ سب پر تجلی نبی کریمﷺکے توسط و وسیلہ سے فرما رہے ہیں سب نور نبی کریمﷺکے نور کے محتاج ہیں۔
کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی
آنکھوں والوں کی ہمّت پہ لاکھوں سلام
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام