Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Codhvi Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Codhvi Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، چودہویں نمازِ تراویح

چودہویں تراویح کا آغازپندرہویں پارہ کی سورہ بنی اسرئیل سے ہوتا ہے جس میں 12رکوع اور111آیات ہیں۔ اس سورہ کا ترتیبِ توفیقی میں 17اورترتیبِ نزولی میں 50نمبر ہے۔ اس سورہ کا نام اسراء اور سبحان بھی ہے جو کہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اسراء کے معنی رات کوجانایاسفرکرنا ہے اور پہلی ہی آیت میں رسول اللہ کے مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیرپر جانے کا ذکر ہے جسے سفرِ معراج بھی کہا جاتا ہے۔

سفرِ معراج کے بارے علماء کی رائے ہے کہ یہ بعثت کے دس سال بعداور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا۔ معراج کا مطلب عروج وبلندی ہے، اس رات حضورنے عالم بالا کے منازل(ساتوں آسمان، سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بھی بلند مقام تک) طے کیے۔ اس سورہ کی پہلی آیت میں معراج کی پہلی منزل مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ذکرہے جو کہ عقلِ انسانی کو دنگ اور حیرت میں ڈالتا ہے مگر وہ پاک ذات اپنے بندے کو راتوں رات اس عظیم و بابرکت سفر پر لے گئی۔ سورہ میں حضرت یعقوبؑ کی اولاد (بنی اسرائیل) کے عروج و زوال کے احوال بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔

آیت نمبر 2سے8تک حضرت موسیٰؑ پر توریت کے نزول اور حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ اپنے جدِ امجد کے طریقے پر قائم رہو۔ جب بنی اسرائیل ظلم و بغاوت میں مبتلا ہو گئے تو ہم نے ان پر عذاب لازم کر دیا اور جب توبہ کی، فساد و تکبر سے باز آئے تو ہم نے تم کو دولت دی اور ان پر غلبہ عنایت فرمایا جو تم پر مسلط ہو گئے تھے۔

آیت نمبر 11میں اللہ تعالیٰ انسان کی جلدبازی وغصے میں اپنے لئے، گھر والوں کے لئے، اولاد کے لیے بدعاکرتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ یہ بدعائیں قبول کر لے تو اہل و عیال سب ہلاک ہو جائیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے قبول نہیں کرتااس لئے جلد بازی اور غصے میں بدعاؤں سے منع کیاگیا۔ آیت نمبر13میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے گلے میں اسکی سعادت یا شقاوت نوشتہ(لکھا ہو ا) ڈال دیا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان جہاں جائے ساتھ ہو کبھی جدا نہ ہو۔ آیت نمبر19میں بتایا گیا کہ عمل کی قبولیت کے لیے تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے1)طالبِ آخرت ہونا 2)سعی یعنی عمل کو اسکے حقوق کے ساتھ ادا کرنا 3)ایمان جو کہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔

آیت نمبر 23میں والدین کے متعلق اسلام کی بہترین تعلیم دی کہ تمہارے رب نے حکم فرمایاکہ اس کے سواکسی کو نہ پوجواور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف یا ہُوں کہ کہنااور انہیں نہ جھڑکنااوران سے تعظیم سے بات کرنا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تین شخص جنت میں نہ جائیں گے 1)ماں باپ کا نافرمان 2)دیوث، جومرداہل وعیال اورمحرم عورتوں کے بارے دینی غیرت سے خالی ہو یعنی ان کو بے حیائی سے منع نہ کرے 3)مَردوں کی وضع بنانے والی عورت۔

اگلی آیت میں ارشاد فرما یا کہ ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھانرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ پھر انسان کو اسکی روزمرہ میں اسراف سے منع فرمایا اور تبذیر و اسراف کا فرق سمجھا کر بتایا کہ مستحق (رشتے دار، مسکین، سائل) کو جھڑکنا حرام اور غیر مستحق کو دینا منع ہے۔ اس کے علاہ جن کاموں کی ممانعت کی گئی ان میں افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کرنا، زنا، قتلِ ناحق، یتیم کا مال کھانے، ناپ تول میں کمی کرنے، لوگوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج لگانے، اِترا کر چلنے، شرک کرنے، جھوٹی گواہی دینے، غلط الزام لگانے جیسے رذائلِ اخلاق۔

آیت نمبر 71میں آخرت کی کامیابی و ناکامی کے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے اور نیک و صاحبِ بصیرت (کامیاب) لوگوں کو نامۂِ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گااور اسے ذوق و شوق سے پڑھیں گے جبکہ کفار (ناکام) لوگوں کو بائیں ہاتھ میں دیاجائے گا۔ آیت نمبر 78میں نماز قائم کرنے اور تلاوتِ قرآن کا حکم ہے کہ نماز قائم رکھوسورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک اور صبح کا قرآن، بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ فجر کی فضیلت، نمازِتہجدکی ترغیب اور رسول اللہ کی شفاعتِ کبریٰ کا بیان ہے۔ پھر حق و باطل میں امتیاز، حق کے غالب ہونے اور باطل کے مٹ جانے کا بیان کرنے کیساتھ قرآن کریم کی روحانیت بارے بتایا کہ یہ ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ انسان کے بارے بتایا کہ جب اس پر رحمت نازل ہوتی ہے تو ہم سے دور ہو جاتا ہے اور جب برائی پہنچتی ہے تو ناامید ہو جاتا ہے۔ یہودی حضور سے روح کے متعلق سوال کرتے تھے تو ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو روح بارے علم عطا فرمایا اور بتایا کہ ان سے کہہ دو کہ یہ میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا۔

آیت نمبر 105میں فرمایا کہ ہم نے قرآن کو حق ہی کے ساتھ اتارایہ حق ہی کے ساتھ اترا، ہم نے تجھے نہ بھیجامگر خوشی اور ڈر سناتا۔ سورہ کی آخری آیت کا نام حضور نے "آیت العِزر "رکھا اور بنی عبدالمطلب کے بچے جب بولنا شروع کرتے تھے تو ان کو سب سے پہلے یہی آیت سکھائی جاتی جس میں اللہ کی خوبیاں اور وحدانیت کا بیان ہے اور یوں کہو سب خوبیاں اللہ کے لیے جس نے اپنے لیے بچہ اختیار نہ فرمایا اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں اور کمزوری سے کوئی اس کا حمایتی نہیں اور اسکی بڑائی بولنے کو تکبیر کہو۔

سورۃ الکھف مکیہ ہے جس میں 12رکوع اور110آیات ہیں اس کا ترتیبِ توفیقی میں 18اور تریتبِ نزولی میں 69نمبرہے۔ کہف کا معنی پہاڑی غارکے ہیں اور آیت نمبر 9تا26اصحابِ کہف کے اولیاء کا ذکر ہے۔ ابو سعید خذری ؓحضور سے روایت کرتے ہیں کہ "جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کر ے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لیے خاص نور کی روشنی رہے گی"۔ حضور نے فرمایا "جو سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا دجا ل ک فتنے سے محفوظ رہے گا"۔

یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات میں نازل ہوئی 1)روح کیا ہے؟ 2)اصحابِ کہف کا قصہ کیا تھا؟ 3)ذوالقرنین کون تھا؟ اور بعض مفسرین نے اس میں ایک سوال اور بتایا کہ وہ حضرت خضر اور موسیٰؑ کا واقعہ کے بارے میں تھا۔ اُفسُوس نامی ایک شہر کے کچھ شرفاء و معزز نوجوان ایک مشرک وجابر بادشاہ (دقیانوس) کی حکومت میں توحید کے قائل تھے۔ بادشاہ لوگوں کوبت پرستی پر قائل کرتا اور جواسکی بات نہ مانتا تو اُسے قتل کروا دیتا۔

دقیانوس کے اس ظلم وبربریت اور شرک سے اپنے ایمان کوبچانے کے لیے بھاگ کر قریب کی پہاڑی غار میں پناہ لے لی اور وہاں تین سو برس تک اللہ کی حکمت و تدبیر سے سو گئے۔ جب بادشاہ کو اس غار بارے معلوم ہوا تو اس نے حکم دیا کہ اس غار کا منہ دیوار کھینچ کر بند کر دیا جائے تاکہ وہ سب اسی کے اندر مر جائیں اور ہی غار ان کی قبر بن جائے۔ جس بندے نے یہ کام کرنا تھا وہ نیک طبع آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام، تعداداور سارا واقع ایک تختی پر لکھ کر صندوق میں دیوار کی بنیاد میں رکھ دیا اور ایک تختی شاہی خزانے میں جمع کروا دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زندگی کو سلامت رکھااور ان کے اجسام کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھا۔

تین سو نو سال بعد وہ سب جاگے اور انکو اندازہ ہی نہی تھا کہ وہ کتنا عرصہ سوئے رہے۔ جاگتے ہی ان کو بھوک محسوس ہوئی تو انھوں نے اپنے میں سے ایک بندے کو شہر بھیجا اور کہا کہ احتیاط سے جاناتاکہ ظالم بادشاہ کو پتا نہ چل سکے۔ ان تین سو نو سال میں وہ ظالم بادشاہ مرگیااور نیک صحیح العقیدہ شخص بادشاہ بن گیا۔ جب دکاندار نے وہ سکہ دیکھاتو وہ پریشان ہوا، بات بادشاہ تک پہنچ گئی اور وہ سمجھ گیا کہ یہ لوگ تین سو سال تک سوتے رہے ہیں۔ ان سب کو بڑی عزت و اکرام کے ساتھ بلایااور جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی یادگار کے طور پر ایک مسجد تعمیر کروا دی۔

آیت نمبر 60سے حضرت موسیٰ اور حضرؑ کا واقعہ شروع وہ رہا ہے جو مشرکین مکہ کا دوسرا سوال تھا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ سے سوال ہوا کہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو موسیٰؑ نے جوا ب میں فرمایا کہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اور بتایا کہ اس کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ نیز موسیٰؑ کو علم کے مزید گوشوں سے روشناس کروانا بھی مقصود تھا چنانچہ موسیٰؑ کو حضر ت حضرؑ سے ملنے کا کہا گیا اور پتہ یہ بتایا گیا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں تک سفر کریں۔ ایک مچھلی اپنے ساتھ لے جائیں اور ایک مقام آئے گا کہ مچھلی گم ہو جائے گی یہ وہی جگہ ہوگی جہاں حضرت حضرؑ آپ کو مل جائیں گے۔ دوسرے طرف حضرت موسیٰؑ اپنے نوجوان شاگردیوشعؑ بن نون کوساتھ لے کراس سفر پر (روٹی اور نمکین بھنی مچھلی لے کر)روانہ ہوئے جو بعد میں خود بھی پیغمبر بنے۔

دونوں بحرِ فارس اور بحرِ روم کے ملنے کی جگہ پہنچے وہاں ایک پتھر کی چٹان اور چشمہ حیات تھا۔ اس جگہ حضرت یوشعؑ وضو کرنے لگے اور حضرت موسیٰ نے آرام فرمایا بھنی ہوئی مچھلی زنبیل میں زندہ ہوگئی اور تڑپ کر دریا میں گری، اس سے پانی کا بہاؤ رک گیا اور ایک محراب سی بن گئی۔ مچھلی نے سمندر میں سرنگ کی طرح کا راستہ بنا لیا اور وہ دونوں اس راستے سے گزر گئے اور چلتے رہے دوسرے روز کھانے کا وقت آیا تودونوں مَجمعُ البَحرین سے آگے نکل گئے۔ اللہ کی حکمت سے بھوک لگی، خادم سے کھانا مانگاتوخادم نے معذرت کی کہ مچھلی نے سمندر میں اپنی راہ لے لی۔ حضرت موسیٰؑ نے فرمایا یہی تو وہ مقام تھاتو وہ پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے۔ تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایاجو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا۔ اپنے اس بندے کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت اور علمِ لدنی عطا کیا۔

حضرت موسیٰؑ نے حضرت حضرؑ کے ساتھ رہنے کی اجازت چاہی تاکہ آپ مجھے سکھا دو نیک بات مگر حضرؑ نے کہا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکے گیں کیونکہ آپ کیونکر اس بات پر صبر کریں گے جس کاآپ کو علم نہیں۔ تب موسیٰؑ نے کہا عنقریب اللہ چاہیے تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا۔ حضرت حضر نے اجازت دی اس شرط پر کہ مجھ سے کسی بات کا نہ پوچھنا جب تک میں خود نہ بتاؤں۔ جب دونوں حضرات روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ تین واقعات پیش آئے۔ پہلا واقعہ کشتی والاہوا جس میں حضرت حضرؑ کشتی کا تختہ نکال کر اس میں سوراخ کر دیا۔

دوسرا واقعہ بچے والا جس کا حضرت حضرؑ نے سر دھڑ سے الگ کر دیا۔ تیسرا واقعہ بستی والوں کا تھا جنھوں نے مہمان داری نہیں کی مگر پھر بھی حضرت حضرؑ نے اس بستی کی گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کر دیا اور معاوضہ بھی نہیں لیا۔ حضرت موسیٰؑ تنیوں واقعات میں خاموش نہ رہ سکے اور ہر واقعہ کے بعدسوال کرتے۔ لڑکے کے قتل پر موسیٰؑ نے کہا کہ تم نے ایک ستھری جان بے کسی جان کے بدلے قتل کر دی بے شک تم نے بہت بری بات کی۔

Check Also

Eid Ka Dusra Din, Youm e Susral

By Muhammad Zeashan Butt