Eugene Rogan Aur Arbon Ki Tareekh
یوگین روگان اور عربوں کی تاریخ
صحافت کے شعبے میں یہ بنیادی اصول گردانا جاتا ہے کہ ایک صحافی یا ریپورٹر کو ریپورٹنگ میں ہمیشہ غیرجانبدار ہونا چاہیے۔ اور اِسے صحافتی اخلاقیات کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ میں امریکی و اسرائیلی جارحانہ پالیسیز کے ناقد آئرش نژاد برطانوی آنجہانی صحافی اور مصنف رابرٹ فِسک اِس مروّجہ غیر حقیقی اور اخلاقی صحافتی اصول کو یکسر مسترد کرتے ہوۓ کہتے تھے کہ۔۔
"صحافی کا کردار محکوم کی طرف داری ہونی چاہیے"۔ اس حوالے سے ان کا ایک مشہور استدلال ہے کہ "اگر ہم اٹھارویں صدی میں غلاموں کی تجارت کی ریپورٹنگ کر رہے ہوتے تو کیا ہم غلاموں کو فروخت کے لیے لے جانے والے بحری جہاز کے کپتان کو بھی برابر کووریج دیتے؟"
رابرٹ فِسک کی یہ راۓ مؤرخین کے مصنفانہ و منصفانہ کردار پر بھی پورا اترتا ہے۔ کیونکہ نہ کوئی مکمل غیرجانبدار مؤرخ وجود رکھتا ہے اور نا ہی یہ ممکن ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں مشرقِ وسطی کی تاریخ کے پروفیسر اور The Arabs; A History کے مصنف ڈاکٹر یوگین روگان نے بھی گویا اِسی فِسکین اصول کے نقطہِ نظر سے جدید عرب تاریخ پر یہ خوبصورت کتاب لکھی ہے۔
ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ڈاکٹر روگان نے مقامی عرب مؤرخین، بادشاہوں، شہزادوں کی تحریروں، ذاتی یادداشتوں، مقامی باشندوں کے مشاہدات اور تجربات کو تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔ اٹھارویں صدی میں، Barber of Damascus کے نام سے تاریخ میں معروف دمشق کا ایک حجّام احمد البدیری (اَلحلّاق) اپنے گرد و پیش کے سیاسی صورتحال سے بڑا باخبر بندہ تھا، اور اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کو ایک روزنامچے میں درج کرتا تھا۔ تین صدی قبل دمشق میں ایسے حجّام کا ہونا حیران کن اور دلچسپ بات ہے کہ جو نا صرف اپنے سماجی صورتحال سے مکمل باخبر تھا، بلکہ اپنے یادداشت کو ایک ڈائری میں باقاعدگی سے لکھتا بھی رہتا تھا۔ اِس ڈائری کو بھی پروفیسر روگان نے اپنے ریسرچ سورسز میں جگہ دی ہے جو کہ ان کی اِس کتاب کو ممتاز درجہ دے کر اسے درحقیقت مقامی عرب لوگوں کی آواز بناتا ہے۔
عربوں کے عہدِ وسطی کا اختتام اور جدید دور کی طرف سفر کا آغاز بصرہ، دمشق، مصر اور پھر سولہویں صدی کے آخر تک پوری عرب سرزمین کا ترکوں کی خلافتِ عثمانیہ کے مکمل زیرِ نگیں آنے پر ہوتا ہے، کہ جب ترکوں نے اپنے جدید آتشی ہتھیاروں سے قدیم روایتی انداز میں تیر و تلوار سے جنگ لڑنے والے مقامی عرب گُھڑ سوار مملوکوں کو شکست دی۔ وہابیوں اور ابنِ سعود کی فوجوں کو مکّہ، مدینہ اور حجاز کے دیگر علاقوں میں شکست دے کر انہیں دوبارہ نجد تک دھکیلنے والے بہادر اور روشن خیال مصری گورنر محمد علی پاشا کے علاوہ ترکوں کے سامنے بیسویں صدی تک عرب دنیا کا کوئی اور مقامی حاکم نہیں ٹِک سکا۔
محمد علی پاشا (1849-1770) مصر کو ایک جدید نظامِ حکومت اور ترقی یافتہ سماج بنانے کے لیے تمام تر وسائل بروۓ کار لاۓ۔ قانونی اصلاحات اور نئے تعلیمی و ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومتی سرپرستی میں وفود یورپ بھیجے۔ ایک وفد کے سربراہ رِفاع التحتوی نے 1814 کے فرینچ آئین کا عربی میں ترجمہ کیا۔ محمد علی مصر میں صنعتی ترقی لے آیا۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ مضبوط خارجہ پالیسی بنائی۔ نہرِ سوئز بنانے کے لیے راہ ہموار کی، جو آج نا صرف مصر بلکہ دنیا بھر کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ خلافتِ عثمانیہ کا اپنا کوئی ایسا دور اندیش اور روشن خیال حاکم ہمیں نہیں ملتا۔ 1952 میں جمال عبدالناصر اور اس کے "فری آفیسرز" گروپ کے فوجی بغاوت میں شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ اُلٹنے تک محمد علی پاشا کا خاندان مصر کا حاکم رہا۔
مصر میں محمد علی پاشا اور اس کے جانشینوں کی ترقیاتی منصوبوں سے متاثر ہو کر ریلوے لائن، پورٹس وغیرہ کی تعمیرات جیسے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے خلافت کے مرکز استنبول اور دیگر عرب حکمرانوں نے یورپی کمپنیوں کے ساتھ دھڑا دھڑ معاہدات کیے تو یہی معاہدات خلافتِ عثمانیہ کی تابوت میں پہلی کِیل ثابت ہوۓ۔ برطانیہ اور فرانس کو عرب سرزمین گویا طشت میں رکھ کر پیش کر دیا گیا۔ ترقی لانے کے بجاۓ یہ منصوبے مشرقِ وسطیٰ کی حکومتوں کو یورپ کی جھولی میں پھینکنے کا باعث بنے۔ تیونس 39 ملین پاؤنڈ سٹرلنگ کا مقروض ہوا۔ صرف نہرِ سوئز کی تعمیر میں برطانیہ و فرانس کی باہم کشمکش نے مصر کو تعمیراتی کام کے آغاز میں ہی تب کے 33 ملین ڈالرز کامقروض کر دیا۔ 1875 میں خلافتِ عثمانیہ نے سوا کھرب کا قرضدار ہونے کے بعد حکومت کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسی لیے پروفیسر روگان کے مطابق؛
The single greatest threat to the independence of the Middle East was not the armies of Europe but its banks.
مشرقِ وسطی میں یورپ کی آمد کے ساتھ ہی ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی، خلافتِ عثمانیہ کی شکست و ریخت کا آغاز، عرب دنیا میں نیشنلسٹ خیالات کا بہاؤ، جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ (سلفیوں کا روح رواں) کی اسلامی عرب نیشنلزم، احمد لطفی سیّد اور مصطفی کمیل کی سیکولر عرب نیشنلزم اور عرب نیشنلزم کے عروج و زوال کا احاطہ کرتے ہوۓ پروفیسر یوگین روگان بیسویں صدی میں خلافتِ عثمانیہ کے انہدام، اسرائیل کے جبری قیام کی تاریخ، فلسطینیوں کی آہ و زاریوں۔۔ مزاحمت، عالمی طاقتوں بالخصوص برطانیہ کی فلسطینیوں کے ساتھ دغا بازی، عرب حکمرانوں کی آپسی رسّہ کشی، عرب اسرائیل جنگوں میں مشترکہ عرب افواج کی بدترین شکستوں، عرب ممالک میں تیل کی دریافت و اس کے اثرات اور مشرقِ وسطی میں سرد جنگ کے دوران جاری رہنے والے سوویت یونین و امریکہ کے مابین رسّہ کشی تک پہونچتے ہیں۔
اس تمام تر وسیع تاریخ کو قلمبند کرکے اس کا تجزیہ کرتے وقت مصنف محکوم کی آواز بننا پسند کرتے ہیں۔ عرب حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کے ساتھ ساتھ اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کو بھی ان کی قبضہ گیریت اور عرب سرزمین کو گولہ و بارود کی آگ میں دھکیلنے پر نہیں بخشا ہے۔ فلسطینیوں کا قتلِ عام کرنے والے وہ اسرائیلی دہشت گرد گروہ (Irgun & Sturn Gangs) جن کے شدت پسند لیڈرز بعد میں اسرائیل کے وزراۓ اعظم بنے، انہیں مصنف نے باقاعدہ دہشت گرد لکھا ہے۔
یوں پانچ صدیوں پر محیط امید اور بے بسی کی اس عرب تاریخ کو اکیسویں صدی میں Arab Spring اور اس کے بعد آج ہماری آنکھوں کے سامنے مشرقِ وسطی میں روزانہ کی بنیاد پر رونما ہونے والے دلخراش مناظر تک ڈاکٹر روگان نے بہترین انداز میں چھ سو صفحات میں سمویا ہے۔ ابواب کی ترتیب انتہائی موزوں اور دلچسپ ہے۔ مکمل طور پر تاریخی کتاب ہوتے ہوۓ بھی مصنف کے بہترین ڈِکشن اور پُر لطف نثری روانی سے قاری ادبی ذائقہ اور لُطف کشید کرتا ہے۔