Social Media Aur Nafsiyati Bohran
سوشل میڈیا اور نفسیاتی بحران
روزِ ازل سے تا امروز انسان ہر دور میں کسی نہ کسی طور پر طرح طرح کے بحران کا شکار رہا ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ جہاں صنعتی انقلاب انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا وہیں مشینوں کی حکومت میں انسان وجودی بحران کا ہدف بھی بنا۔ اس کا تشخص اور تدبر اشیاء کے پرزوں کی نظر ہوگیا۔ جس کے رد عمل میں وجودیت کے باقاعدہ فلسفے نے جنم لیا اور انسان کی انفرادیت، پہچان اور آزادی کو مقدم رکھا۔
عصر حاضر کے اس سائنسی و ٹیکنالوجی کے تیز گام اور ڈیجیٹل ہنگام پرور دور میں انسان جس لت کا شکار ہے وہ سوشل میڈیا کی گہما گہمی اور اس کا شدید استعمال ہے۔ اس کے اندھا دھند استعمال کے سبب انسان نفسیاتی بحران کے اضطراب میں مبتلا ہے۔
سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کا ایک وسیلہ ہے جس میں مختلف ویب سائٹس اور متنوع ایپلیکیشز کا جال پھیلا ہوا ہے۔ اس کے توسط سے ہم دوسروں تک اپنے پیغامات، تصاویر، ویڈیوز، ضروری دستاویز اور دیگر مواد کا تبادلہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا جزوِ بدن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جس کے بغیر سانس لینا محال اور خود کو نفسیاتی عوارض میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔
انسان جذبات و محسوسات کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے انفرادی و اجتماعی طور پر سماجی و معاشرتی سطح پر ہونے والی تبدیلی انسانی ذہن پر ان مٹ نقوش چھوڑتی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا نے انسانی ذہنوں کو نہ صرف اپنی لپیٹ میں لیا بلکہ نفسیاتی الجھنوں، دماغی خلل اور اعصابی عوارض کا سبب بھی بنا۔
اس کی ایک اہم مثال ہمارا موبائل فون/سیل فون ہے۔ جس کے بغیر ہم جی نہیں سکتے۔ ہمیں ہر وقت اپنے موبائل کی فکر رہتی ہے۔ موبائل سے دوری یا اس کے بغیر رہنے کے خوف کو(Namophobia) کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح No Mobile Phobia کا مخفف ہے۔ ایسے لوگوں کو ہر وقت موبائل کا احساس رہتا ہے۔ موبائل میں موجود ذاتی اور ضروری مواد کے سبب یہ بے چینی اکثر ستائے رکھتی ہے۔
سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے والے اکثر لوگ (Fomo) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فومو ایک ذہنی اندیشہ ہے۔ جو Fear of Missing Out کا مخفف ہے۔ اس سے مراد محروم ہوجانے کا خوف یا کسی شے کے کھو جانے کا ڈر ہے۔ وہ لوگ جو فسیبک، واٹس ایپ، انسٹاگرام پوسٹ یا اسٹیٹس پر لوگوں کو ہشاش بشاش، کسی نامور شخصیت کے ساتھ یا تفریحی مقامات پر دیکھتے ہیں یا ایسی پوسٹ ان کی نظر سے گزرتی ہیں جن کو دیکھ کر انھیں خود کی وہاں عدم موجودگی کا احساس ہوتا ہے یا متاثر ہو کر یہ تصور کرنا کہ کاش میں بھی ایسے مقام و مرتبے پر ہوتا، تو ایسے لوگ اس فومو کا شکار ہوتے ہیں۔
اپنے اور دوسروں کے ایسے موازنے سے انسان جب خود کو کمتر محسوس کرتا ہے تو وہ ذہنی تناو اور شدید نفسیاتی بحران اور اضطراب میں چلا جاتا ہے جسے ڈپریشن کہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقی زندگی میں وہ سب بھی اتنے ہی پریشان ہوتے ہیں جتنے آپ ہیں، صرف مقبولیت اور پسندیدگی کے حصول کی خاطر سوشل میڈیا پر ہی رنگا رنگی سے مزین ایسی تصویریں لگاتے ہیں۔
اس کے علاوہ لمحہ بہ لمحہ اپنے سیل فون کو محض اس لیے دیکھنا کہ کہیں کوئی اہم یا آگاہی میسج نہ چھوٹ جائے یا کوئی ضروری کال نہ آئی ہو اس سے محروم ہوجانے کا خوف، فومو کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اپنے موبائل کو آف لائن ڈیٹا پر رکھنے پر بھی اسی طرز کا ایک خوف جنم لیتا ہے جس میں یہی وہمی کیفیات پیدا ہوتی ہیں اسے FOBO یعنی Fear of being offline کہتے ہیں۔
فومو کی اصطلاح امریکی سرمایہ دار پیٹرک جیمز کی اختراع ہے۔ جہاں یہ سوشل میڈیا کے تناظر میں مستعمل ہے وہیں ہمارے موبائل اور دیگر گیجٹس کے بغیر سماجی زندگی پر بھی اطلاق کرتی ہے۔
بسا اوقات سوشل میڈیا ہمارے لیے نشے کا سبب بھی بنتا ہے یہ نشہ شہرت، تعریف و ستائش اور اہمیت ملنے کا ہے۔ اکثر لوگ فسیبک، انسٹاگرام اور ٹویٹر وغیرہ پر اپنی تصاویر، تحاریر یا دیگر مواد کا اشتراک کرتے ہیں جس کے بدلے میں انھیں پسندیدگی اور رائے کی صورت میں تعریف و تحسین حاصل ہوتی ہے۔ اس سے انھیں مقبولیت، انفرادیت اور اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے جس کے سبب ان کے جسم میں ڈوپا مین کی صورت خوشی کی لہر ڈوری جاتی ہے۔ یہیں سے سوشل میڈیا کی لت لگ جاتی ہے اور بعض اوقات یہ لت بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
اس کے برعکس سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جو پوسٹ کرنے کے بعد بار بار اپنے نوٹیفیکیشز کو دیکھتے ہیں کہ ابھی تک کسی کی طرف سے پسندیدگی کا سرخ دل نما نشان یا اظہار رائے کیوں نہیں ہوا۔ کچھ ہی دیر میں ایسے لوگ اس وہم سے اپنی پوسٹ حذف کر دیتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی پوسٹ کو پسند نہیں کیا اور یہ بھی ایک نفسیاتی عارضہ ہے جسے Foji یعنی fear of joining In کہتے ہیں۔ اس کیفیت کے لوگ شدید احساس کمتری اور تنہائی کے ہدف سے اپنی شناخت نامے سے تصویر (DP) تک حذف کر دیتے ہیں اور آیندہ پوسٹ محض اس لیے نہیں کر پاتے کہ لوگوں کی طرف سے انھیں نا پسندیدگی کا خوف لاحق رہتا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال حال ہی میں پیش آنے والی ایک وبائی بیماری کرونا وائرس کے دوران میں سب سے زیادہ ہوا۔ سوشل میڈیا کے زندگی حقیقی دنیا سے ہٹ کر مجاز کے قفس میں قید ہوگئی۔ اس دور میں انسان گھر تک محدود ہوگیا۔ کیوں کہ باہر ہر طرف کرونا وبا کا خوف تھا اور لوگ باہر جانے سے خوف محسوس کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ایسی ذہنی حالت کوFear of Going out)Fogo) کہتے ہیں۔ جس میں انسان گھر سے باہر خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے اور باہر جانے سے خوف کھاتا ہے۔ علاوہ ازیں سماجی فوبیا بھی اس صورتحال کا غماز ہے۔
مزید براں سوشل میڈیا کے اس ریل پپل میں جہاں مفید مواد کی فراہمی ممکن ہوتی ہے وہیں فحش مواد کا اشتراک بھی بے دریغ کیا جاتا ہے۔ ہمارا ذہن جیسے ہی کوئی فحش مواد پر مبنی تصویر یا ویڈیوز دیکھتا ہے تو اسی وقت انسانی جنسی ہارمون کو تحریک ملتی ہے اور وہ مزید ایسا مواد دیکھنے پر اکساتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ فحش بینی کی تاریک لت میں بُری طرح مبتلا ہوتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں تدبر کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے اور انسان ذہنی کشمکش اور مختلف اعصابی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
ان کے علاوہ سوشل میڈیا پر مفاد کی خاطر خفیہ رابطوں دھمکیاں وصول ہونا، دوسرے کے شناخت نامے ہیک کرکے ہراساں کرنا اور دیگر ایسے فنی و تکنیکی حربے (سائبر کرائم) ہیں جو انسان کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں خود کشی کے بھی کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔
سوشل میڈیا کے سبب مذکورہ تمام نفسیاتی بحران اور عوارض کے علاوہ طبی طور پر جسمانی صحت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے کہ نیند کی کمی، مزاج کی عجلت پسندی، آنکھوں کی بینائی کا کمزور ہوجانا، گردن اور سر میں درد وغیرہ۔
ماہر نفسیات اور ڈاکٹر حضرات سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی بحران یا نفسیاتی عارضوں سے چھٹکارے کے لیے سوشل میڈیا، موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر گیجٹس سے وقفہ لینے کی تاکید کرتے ہیں یا ان کے استعمال کو ایک مختصر حد تک موقوف کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ تاکہ یہ زہر ذہن سے خارج ہو اور کچھ افاقہ ہو سکے نیز انسانی ذہن اور جسم اپنے نارمل حالات سے مراجعت کر سکے۔ ایسے علاج کو اصطلاحاً Digital Ditox کا نام دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا ایک فریب نظر ہے جسے لوگ حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اس کے صارفین کو چاہیے کہ اس دام افگن سے بچنے کے لیے اس کے استعمال میں اعتدال کو ضرور مد نظر رکھیں اور اس رہینِ خانہ سے نکل کر ماحولیات سے اپنے تعلق کو یقینی بنائیں۔