1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Zaat Aur Khwab

Zaat Aur Khwab

ذات اور خواب

چوہدری کرامت علی کا ڈیرہ مزارعین سے پر تھا۔ ہر جمعہ کو مغرب کی نماز کے بعد ڈیرہ پر سب کا جمع ہونا معمول تھا۔ سارے ہفتے کی سرگرمیوں کا ذکر ہوتا، مسائل بیان کیے جاتے۔ منشی خیر دین چوہدری کرامت کو ہر چھوٹی بڑی خبر سے آگاہ کرتا، پھر ایک ایک کرکے سارے مسئلے سلجھائے جاتے۔ چوہدری کرامت کی نظر دور سے آتے خیر دین پر پڑی جو لیٹ ہو جانے کے خیال سے ہانپتا، کانپتا بھا گا چلا آرہا تھا۔

قریب آنے پر ہاتھ جوڑ کر سلام کیا، آجا بھئی خیر یا! کیا حال ہے؟ گھر بار ٹھیک ہے؟ چوہدری کرامت نے بڑی شفقت سے پوچھا۔ خیر دین کی پشتوں نے چوہدریوں کے خاندان کا نہ صرف نمک کھا یا تھا، بلکہ اس کا حق بھی ادا کیا تھا۔ اللہ کا بڑا کرم ہے جی، خیر دین نے بڑی عاجزی سے جواب دیا۔ بس ایک پریشانی ہے! وہ جی دھی رانی زینب نے خیر سے گاؤں کے سکول سے پانچ جماعتیں تو پڑھ لیں پر جی اسے آگے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اس کے لئے تو شہر جانا پڑے گا۔ اس کے ما تھے پر کچھ تشویش کی لکیریں ابھریں۔

چوہدری کرامت علی بولے، خیر یا! تیری زینب تو ہماری سکینہ کے ساتھ کھیل کود کر بڑی ہوئی ہے۔ سکینہ اب گھر پہ ہی رہے گی۔ اور چھ سات سالوں میں خیر سے اپنے گھر کی ہو جائے گی۔ تو کل سے زینب کو حویلی بھیج دینا۔ چوہدرانی کا جی آجکل اچھا نہیں ہے۔ کچھ مہینوں میں حویلی میں خوشخبری آنے والی ہے۔ زینب چوہدرانی کے پاس ہی رہے گی اور چھوٹےموٹے کام کردیا کرے گی۔ چھوٹا چوہدری آجائے تو اس کا بھی خیال رکھا کرے گی۔ بسں اب تو اس ذمہ داری کو بھول جا۔

پر چوہدری صاحب! زینب شہر جا کر پڑھنا چاہتی ہے آپ کو تو پتہ ہے وہ میری ایک ہی اولاد ہے، میں نے آج تک اس کی کوئی بات نہیں ٹالی۔ اس کی ماں شادو بھی یہی چاہتی ہے۔ بالک کے ساتھ تو بھی بچہ بن گیا ہے، خیر یا، چوہدری کرامت کی آواز نے پنچایت کو ہلا دیا تھا۔ اپنی اوقات سے بڑے خواب دیکھنے لگ گیا ہے خیر دین، کل زینب کو حویلی لے آنا، اب وہ دن رات چوہدرانی کے پاس ہی رہے گی۔ اس کا کپڑا لتا، کھانا پینا سب ہمارے ذمہ ہے۔ جب تیرا یا شادو کا جی چاہے، اس سے آ کر مل ملا جانا۔ کبھی چوہدرانی اسے بھی گھر بھیج دیا کرے گی۔ ہاں جب اس کا رشتہ طے کرو گے تو لے جانا، اور کوئی فکر نہ کرنا۔ چوہدرانی کسی چیز کی کمی نہ رکھے گی۔

پنچایت سے آنے کے بعد وہ رات خیر دین پر بہت بھاری تھی۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں وہ اور شادو بڑی دیر تک جا گتے رہے۔ زینب اپنے سارے خوابوں کا بوجھ ان دونوں پر ڈال کر ہر چیز سے بے نیاز گہری نیند سو رہی تھی۔ خیر دین کو یاد آرہا تھا کہ وہ بھی گاؤں کے سکول میں بڑے شوق سے جایا کرتا تھا۔ اس کا باپ چوہدریوں کے گھر میں مالی تھا۔ پرائمری کے بعد وہ بھی باپ کا ہاتھ بٹانے حویلی چلا جاتا۔ کیاریاں بنانے اور پودے لگانے میں باپ کی مدد کرتا۔ اس نے بھی باپ سے شہر جا کر آگے پڑھنے کی ضد کی تھی۔ جس پر ماں باپُ نے اسے اچھی طرح سے سمجھا بجھا دیا۔ اس کی ذہانت اور اچھا حساب کتاب کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے حویلی میں منشی کی ملازمت دے دی گئی۔

رات کا کافی پہر خود سے الجھنے میں بیت گیا۔ وہ اور شادو سوچتے رہے کہ کیا خوابوں کی بھی کوئی ذات ہوتی ہے؟ مالی کا بیٹا صرف منشی ہی بن سکتا ہے؟ منشی کی بیٹی تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتی؟ اس رات خیر دین اور شادو سو نہیں سکے۔ آج خیر دین میں جیسے برسوں پرانا وہ مچلتا ہوا ضدی بچہ جاگ گیا تھا جسے بہت سا پڑھنا تھا، جس کی تختی سکول میں سب سے زیادہ چمکا کرتی تھی۔ ماسٹر جی کے ہر سوال کے جواب میں جس کا ہاتھ سب سے پہلے کھڑا ہوتا تھا۔

صبح فجر کی نماز کے وقت نمازیوں کی صف میں خیر دین موجود نہیں تھا۔ اس کے گھر پر پڑا تالا اس بات کا پکا ثبوت تھا، کہ وہ اپنی ذات اور اوقات سے بڑے خواب دیکھنے کی قیمت چکانے کے لئے تیار ہے

سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی

سڑکوں پہ اپنے خواب لئے بھاگتے رہے

کچھ دنوں تک گاؤں میں خیر دین کی سرکشی اور گاؤں چھوڑنے پر چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ چوہدری کرامت کے گھر کسی دوسرے مزارع نے اپنی بیٹی چوہدرانی کی خدمت گزاری کے لئے بھیج دی۔ وقت گزرتا رہا۔ چوہدری کی زینب بڑی دھوم دھام سے بیاہ کر ساتھ والے گاؤں چلی گئی۔ دونوں بیٹے باپ کی جگہ پنچایت سنبھالنے لگے۔ انہوں نے بھی بس پرائمری سکول تک جاکر چودھراہٹ کے داؤپیچ سیکھنے شروع کر دیئے تھے۔

آج گاؤں کی پنچایت میں سب کے چہرے پر تشویش تھے۔ آس پاس کے گاؤں سیلاب کی زد میں آرہے تھے۔ حفاظتی اقدامات اور تدابیر کی بات کی جا رہی تھی۔ سب سے زیادہ فکر تو کچے اور گارے مٹی کی لیپا پوتی والے گھروں کو تھی۔ پیٹ کی آگ بجھانا غریب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اب اس سیلاب کی افتاد نے توجیسے پیروں کے نیچے سے زمیں اور سر کا سائبان ہی چھین لیا ہو۔ کچے گھر حسرت و یاس کی تصویر نظر آتے تھے۔ ہاں پکی حویلی آج بھی سینہ تان کے کھڑی تھی۔ کچے گھروں کے کچھ مکیں تو پہلے ہی نقل مکانی کر گئے۔ لیکن کسے خبر تھی کہ اگلا دن ہی گھروں کے گھر بہا لے جائے گا۔

آج نہ جانے کتنوں کی بیٹوں کا جہیز، اور برسوں کی جمع پونجی سب بپھرےپانی کی زد میں آ چکے تھے۔ حشر کا سا سماں تھا۔ مکانات ملنے کا ڈھیر اور مکین حسرت ویاس کی تصویر بن چکے تھے۔ شہر سے امدادی تنظیمیں کاروائی کے لئے پہنچ چکی تھیں۔ چوہدری اور اس کے دونوں بیٹے بڑی تندہی کے ساتھ ان تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے۔ شہر سے آئی ہوئی خاتون ایس پی مسلسل اپنی ٹیم کو ہدایات دے رہی تھی۔ اچانک چوہدری کرامت کی نظررضا کاروں پر پڑی تو اس میں ادھیڑ عمر کا ایک شخص جوانوں جیسے حوصلے سے کام کرتا نظر آیا، چوہدری کرامت کو اپنے جدّی پشتی خدمت گار کو پہچاننے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگی۔

اوئے خیر یا تو برسوں بعد اس ہڑ میں کدھر سے آ گیا؟ خیر دیں بڑی گرمجوشی سے بھاگتا ہوا آیا اور سلام کے بعد کہنے لگا، چودھری صاحب! آج گاؤں کو میری ضرورت ہے تو دھی رانی زینب کے ساتھ میں بھی گاؤں آگیا۔ چوہدری صاحب کے لہجے میں تھوڑی کڑواہٹ آئی، اچھا! زینب بھی تیرے ساتھ آئی ہے۔

جی چوہدری صاحب! اپنی دھی رانی تو وڈی پولیس آفیسر بن گئی ہے۔ اس وقت خیر دین کی آنکھوں میں اپنے خوابوں کے سچ ہو جانے کی چمک تھی۔ آج ہجرت کے سارے دکھ مٹ چکے تھے اورخیر دین اپنی دھی رانی کے خواب پورے کر کے مٹی کا قرض چکانے واپس آگیا تھا۔

Check Also

Zuban e Haal Se Ye Lucknow Ki Khaak Kehti Hai

By Sanober Nazir