Sunday, 22 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Waqt Hum Aur Roz Marra

Waqt Hum Aur Roz Marra

وقت ، ہم اور روزمّرہ

گردش لیل ونہاروقت، ہماری مٹھی سے ریت کی مانند پھسلتا وقت، ہمیں ہر روز نئےاتار چڑھاؤ دکھاتا وقت، ہمارے اندازوں کو غلط ثابت کرتا وقت۔ کبھی ہمارا وقت سے گلہ کرنا، کبھی وقت کو مؤرد الزام ٹھہرانا، اچھا وقت آنے کی امید رکھنا، مشکل وقت ٹل جانے کی دعا کرنا، یعنی وقت ہماری زندگی پر پوری طرح سے اثرانداز ہے۔ اور کیوں نہ ہو، زندگی بھی تو وقت ہی ہے۔ وقت کا انسان پر گہرا اثر ہے اور وہ بھی وقت سے برسر پیکار ہے۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں وقت کے بارے میں بہت کچھ کہتے اور سنتے ہیں۔ مثلا کسی دوست یا عزیز سے ملاقات پر پوچھنا کہ کہیۓ! کیسا وقت گزر رہا ہے؟ کبھی جواب ملتا ہے۔ اللہ کا بڑا کرم ہے، اچھا وقت کٹ رہا ہے۔ صحت، گھر، ملازمت، سب ٹھیک ہے۔ تو کبھی جواب آتا ہے، کہ برا وقت ہے، دعا کیجۓ گا۔ یہ بھی سننے میں آ تا ہے کہ بھئ وقت تو آج کل فلاں صاحب کا ہے، جسں چیز کو چھو لیں سونا بن جاتی ہے۔ کئ کاروباری افراد اپنے کاروباری خساروں کے ليے وقت اور حالات کو دوش دیتے نظرآتے ہيں۔ بقول طارق عزیز

ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں

کھولیں دکاں کفن کی تو لوگ مرناچھوڑ دیں

عزیزواقا رب سے ملاقات پر نہ ملنے یا دیر سے ملنے پر استسفسار کیا جاۓ تو جواب میں وقت کی تنگی اور کمی کا رونا سننے کو ملتا ہے۔ اس کے برعکس کہیں دوست یا عزیز گلہ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ بہت بوریت ہے، وقت ہے کہ کاٹے نہیں کٹتا۔ کہیں وقت کے باعث ملازمت اور گھریلو زندگی پریشان ہے تو کہیں فراغت اورفراوانی وقت کے مسائل۔ ایک دفعہ اپنے حلقہ احباب میں ایک بزرگ سے ملنے کا موقع ملا، جو ریٹارمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ میں نے پوچھا، کہیے کیسا وقت گزر رہا ہے؟ اداس لہجے میں بولے زندگی تو ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے گزر گئی، بس اپنے لیے ہی وقت نہ ملا۔ اب عمر کے اس حصے میں یہ وقت بھی کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اس سے ہمیں دو باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔ پہلی یہ کہ معاشی اور سماجی زمہ داریوں کا بوجھ ایک طرف، لیکن اپنی ذات کو کبھی نظراندازنہ کریں۔ وقت سے کچھ لمحے اپنے لیے ضرور چرا لیا کریں ایسا نہ ہو کہ آپکی خواہشات حسرتوں میں بدل جایئں۔ اپنے آپ کو کبھی کبھی ایک غیر معمولی تحفہ دے دیا کریں یعنی خود کو وقت دیں۔ دوسری بات یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کو فالتو یا ناکارہ نہ سمجھیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو بہت سے افراد ریٹائرمنٹ سے پہلے اس کی پلاننگ کرتے ہیں کہ وہ یہ وقت کیسے گزاریں گے۔ اگر آپ کوئی جز وقتی ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو اس میں قطعا کوئی برائی نہیں، یا وہ creative کام کریں جو آپ دوران ملازمت وقت کی کمی کے باعث نہیں کر پاۓ۔ جب لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد شغلا کام کرتے ہیں تو ان کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ ان پر کیرئر کا دباؤ اور کولیگز کے ساتھ مقابلے کی دوڑ دونوں ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو کئی ریٹائرڈ افرا د volunteers کے طور پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کام ان کے جسم اور ذہن کو توانائی دیتا ہے۔ تعلیمی ادارروں، ہسپتالوں اور لائبریریوں میں ان افراد کو انتہائی خوشدد لی سے کام کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ شیکسپئر کے مطابق ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم سوچتے ہیں۔

زندگی میں ہر واقعہ اور ہر حادثہ وقت سے جڑا ہوا ہے۔ مشکل وقت کم بھی ہو، تو بہت زیادہ لگتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان مشکل وقت سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اور بہت سے لوگوں کی صحیح پہچان بھی اس مشکل اور کڑے وقت میں ہی ہوتی ہے۔ زندگی میں مشکل وقت کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کوئی ناکامی، رشتوں میں اتارچڑھاؤ، پرا نے دوستوں کا چھوٹ جانا۔ موت جیسی اٹل حقیقت کے باعث اپنے کسی پیارے کو کھو دینا وغیرہ۔ برے وقت میں لوگوں کا رویہ بھی بدل جاتا ہے۔ اس میں سیکھنے والی بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے ہمیں اچھا وقت عطا کیا ہو تو ہم خود کو اتنا نہ بدل ڈالیں کہ برا وقت آنے پر کوئی ہمارے ساتھ بھی نہ کھڑا ہو۔ وقت کے بدل جانے کی خاصیت ہم انسانوں کے حق میں شاید بہتر ہی ہے۔ ہم اچھے وقت میں مغرور اور برے وقت میں مایوس نہیں ہوتے۔ زندگی میں وقت اور زمانہ ہمیں بہت کچھ سکھا جاتا ہے۔

وہ کتابوں میں درج تھا ہی نہیں

جو پڑھایا سبق زمانے نے

کیلنڈر پر گزرتے مہ وسال کےعلاوہ زندگی میں بہت سےعوامل ہیں، جو ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتے ہیں۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر حیرت زدہ رہ جانا، ہمارا ہاتھ چھوڑ کر بچوں کی نئی منزلوں کی طرف روانگی، زندگی کی بھاگ دوڑ میں تھکن کا احساس ہونا اس کی چند مثالیں ہیں۔ ہمیں مثبت سوچ اور کشادہ دلی سے وقت کی اس تبدیلی کا استقبال کرنا چاہیے۔

ٹائم مینجمنٹ کے ماہرین نے انسانی وقت کو چار حلقوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حلقہ اس کی ذات، دوسرا معاشی تگ ودو، تیسرا خاندان اور چوتھا حلقہ سماج کا ہے۔ جب بھی وقت، اسکے استعمال، ضیاع یا پابندی کی بات ہو تو یہ چاروں حلقے بہت اہم ہیں اور ان چاروں میں توازن ہمارے لیےوقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وقت کے ضیاع کو روکنے کے لئے خور احتسابی سب سے اہم ہے۔ کسی بھی کام کو پوری توانائی سے نپٹا کر مطمئن ہو جانا مثبت رویہ ہے۔ وقت کے قدر شناس لوگ کامیاب زندگی گزارتے ہیں ۔ اس کے برعکس وقت ضائع کرنے والے لوگ ناخوش رہتے ہیں۔ وقت ہمارے ساتھ جو بھی کرے ہمیں وقت کی قدر کا احساس ہونا چاہیے۔ وقت کو ضائع کرنا زندگی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اور یہ بھی ہم نے ہی طے کرنا ہے کہ ہم وقت کہاں ضائع کرتے ہیں؟

ارسطو نے وقت کے بارے میں کہا تھا، Time is the most unknown of all unknown things.

Check Also

Sufism, Islah Ya Inheraf?

By Sheraz Ishfaq