Tabdeeli
تبدیلی
انسان کو اپنی عادات، روٹین یا رویوں میں تبدیلی لانی ہو، تو اس کے لئے مضبوط قوت ارادی اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کو لے لیجئے، وہ اس مقام تک راتوں رات نہیں پہنچتا۔ اگر کوئی شخص سست اور کاہل پسند ہے تو جب تک خود کو محنت کی عادت ڈال کر کسی بھی کاروبار یا ملازمت میں جان نہیں مارتا۔ کامیابی محض ایک خواب رہتی ہے۔ اپنے سپنوں کو تعبیر کرنا جذبے اور لگن ہی سے ممکن ہے۔
کینڈا میں ڈرائیونگ سیکھتے وقت ایک ہندو انسٹرکٹر نے کہا، کہ آپ پاکستان سے ہیں، تو ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، برا مت منائیے گا۔ سنا ہے کہ پاکستان میں لوگ محنت سے جی چراتے ہیں اور اپنے ذاتی کام بھی خود اٹھ کر کرنا پسند نہیں کرتے۔ بس بیٹھ کر ملازمین سے کام کروا کر خوش رہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ خاندانی امرا اور جاگیرداروں کے علاوہ سیلف میڈ لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جو اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے آئے ہیں اور کسی اعلی مقام پر پہنچ کر بھی سادگی اور عاجزی کا دامن نہیں چھوڑتے۔
موم بتی اور لالٹین کی روشنی میں پڑھنے والے دیہی اور پسماندہ علاقوں کے بچے اپنے گاؤں اور قصبے کا نام روشن کرتے ہیں۔ لیکن مجھے اس کی جانکاری پر زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ اس میں کہیں سچ بھی موجود تھا۔ آج بہت سے نوجوان راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں۔ کسی چھوٹی ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بجائے بڑے عہدے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمارا معاشرتی نظام بھی کھوکھلا ہو چکا ہے۔ معمولی ملازمت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اس سے بہتر سمجھا جاتا ہے کہ بیکار بیٹھ لیا جائے۔ اگر آپ سفر کی شروعات ہی نہیں کریں گے تو منزل پر کیسے پہنچیں گے؟
وطن عزیز کے چوراہوں اور شاہراہوں پر جواں، صحت مند مرد و خواتین کوبچوں سمیت ہاتھ پھیلائے دیکھا تو دل کٹ کے رہ گیا۔ کچھ بولنے کی کوشش کی تو سننے کو ملا کہ کیوں سر کھپا رہی ہیں؟ کوئی فائدہ نہیں، بس ان کو پیسے نہ دیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان معصوم ذہنوں کی عزت نفس اور خودداری کو کچلنے والے تن آسان ان کے اپنے والدین ہی ہیں۔
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے، اے اکبر
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
جب کسی ننھے منے ہاتھ سے جوس یا چائے کا کپ لیا تو اپنے ہاتھ میں کپکپاہٹ محسوس کی۔ لیکن اس احساس کی بھی اس وقت موت ہوگئی جب پتہ چلا کہ ان معصوموں کے والدین اپنی مرضی سے انہیں یہاں رکھوا کر گئے ہیں کہ کچھ بوجھ تو ہلکا ہو جائے۔ پھر تو اس بات پر شکرادا کیا، کہ چلو کسی اچھے گھر میں ہیں ورنہ تو ان معصوم پھولوں کا جسمانی اور ذہنی استحصال کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ اپنے جائز کاموں کے لئے بھی پیسے، طا قت یا عہدے کا استعمال دیکھا۔
کیا ہم عادت یا مصلحت کے تحت جھوٹ بولنے کے عادی ہو رہے ہیں؟ لیکن ان حالات میں کیا مجھے اپنے حصے کی شمع روشن نہیں کرنی چاہیے؟ کیا مجھے قطعاََ مایوس ہو جانا چاہیے کہ اب کچھ نہیں بدلے گا؟ ملک کے حالات بدلنے سے پہلے کیا فرد واحد کا کردار نہیں بدلنا چاہیے؟ دوسروں کو خوش کرنا اہم ہے؟ یا اپنے ضمیر کے مطابق کیے گئے فیصلوں پر قائم اور مطمئن رہنا ضروری ہے؟ کیا انفرادی طور پر ایک شہری اپنی سوچ اور اعمال کا جواب دہ نہیں؟
آج ایک فرد واحد اپنے بارے میں کم اور دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے۔ اپنے گھر کو ٹھیک رکھنے کے بجائے دوسروں کی فکر کرتا ہے۔ اپنے پڑوسی کی ضروریات یا خیریت کے بجائے اس کے معاملات زندگی کی ٹوہ میں رہتا ہے۔ کسی کے گھر میں آگ لگی ہو تو بجھانے والے کم اور ہوا دینے والے زیادہ ملتے ہیں۔ کسی ہجوم کی پیروی یا تقلید کرنے سے پہلے مجھے علم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ صحیح سمت میں جا بھی رہے ہیں یا نہیں؟ مقابلے کی اندھا دھند دوڑ میں کودنے سے پہلے کیا مجھے اپنے وسائل کا حقیقت پسندی سے جائزہ نہیں لینا چاہیے؟
کیا مجھے اوپر آنے سے پہلے کسی دوسرے کو نیچے گرانا ضروری ہے؟ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی تکلیف پر کوئی درد محسوس نہیں کرتا تو کیا اس کے اندر کی انسانیت مرچکی ہے؟ ایک آزاد معاشرے میں ہر شخص اظہار رائے کی آزادی رکھتا ہے۔ لیکن کیا اختلاف رائے رکھنے پر غیر مہذب ریمارکس اور ذاتی کردار کشی جائز ہے؟ عدم برداشت کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر آپ کے رائے مجھ سے الگ ہے یا آپ کا نقطہ نظر مختلف ہے تو آپ میری بات سننے کے روادار ہی نہیں۔
سوشل میڈیا کو بھی اپنا فرض دیانت داری سے نبھانا چاہیے۔ سچ بولیں اور سچ دکھائیں۔ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں فراہم کرنا، مبالغہ آرائی سے کام لینا اخلاقی جرم ہے۔ انہیں سوچوں سے الجھتے اور اپنے پیاروں کی محبت بھری یادوں کو سمیٹتے ہوئے کینڈا واپسی کیلئے ستمبر کی وہ اداس سی شام بھی آگئی۔ یوں لگا کہ جیسے ایک مہینہ پنکھ لگا کر اڑ گیا۔ دل میں امید کی شمع روشن تھی کہ وقت بدلے گا، لوگ بدلیں گے، اور تبدیلی آئے گی۔۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے