Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Samaan

Samaan

سامان

سامان اس دنیا کے مادی نظام کا ایک اہم جز ہے۔ انسان اپنی زندگی میں مختلف طرح کے سامان سے گھرا رہتا ہے۔ اور اس سامان کی بنیاد اس کی ضروریات ز ند گی پر ہوتی ہے۔ اس سامان کا چناؤ وہ خود کرتا ہے۔ جس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے۔ مثلا اس کے مالی حالات، ذاتی پسند وناپسند، حس جمالیات، نمودو نمائش یا آرام دہ طرززندگی وغیرہ۔ انسان جب نیا گھر بناتا ہے یا خریدتا ہے تو اسے ضروری سامان سے آراستہ کرتا ہے، تاکہ اس میں رہائش پذیر ہو سکے۔ اگر وہ نقل مکانی کرتا ہے تو اپنے سامان کے سا تھ د وسرے گھر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اور وہ کہیں سفر کرتا ہے تو بھی اپنی ضرودت کا سامان اپنے ساتھ لیکر جاتا ہے۔ یعنی انسانی زندگی اور سامان کا گہرا رشتہ ہے۔

سامان کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق ہمارے اپنے پیاروں یا محبوب لوگوں سے ہوتا ہے۔ زندگی کے سفر میں اگر وہ ہم سے عارضی یا دائمی طور پر بچھڑ جائیں، تو ہم ان کے کچھ سامان کو ان کی یاد میں سنبھا ل رکھتے ہیں۔ اس سامان میں رومانوی خطوط، کڑھائی والے روما ل، کتابوں میں رکھے پھول، اور تحفتا دی جانے والی چھوٹی موٹی اشیاء شامل ہیں۔ بقول شاعر

کوئی لہجہ، کوئی جملہ، کوئی چہرہ نکل آیا

پرانے طاق کے سامان سے کیا کیا نکل آیا

ہمارے ہاں مرحومین کے بعد ان کے زیر استعمال سامان کو مستحق لوگوں میں بانٹنے کا رواج عام ہے۔ گھروں میں ضرورت سے زیادہ سامان کو خدمت خلق میں دینا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے۔ اپنی زندگی اور گھروں میں سامان کی کثرت اور اس سے محبت دلوں کو مردہ کر دیتی ہے۔ اپنی ضرورت کے مطابق مال اور سامان پر مطمئن اور خوش ہو جانا قناعت پسندی ہے۔ جب کہ حریص انسان بہت سے مال سے بھی خوشی حاصل نہیں کر پاتا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله وآلہ وسلم نے فرمایا "امارت سامان کی کثرت سے نہیں ہوتی بلکہ امیری تو دل کی امیر ی ہے "۔

دل کی امیری یا بادشاہت سے مراد یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں حرص اور بخل شامل نہ ہو۔ قناعت پسندی ایک سوچ اور رویے کا نام ہے اور اس کا تعلق ہمارے دل سے ہوتا ہے۔ یعنی ہم اندرونی طور پر پر مطمئن ہیں۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لائیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں رہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں زوربازو آزما کر اپنی تقدیر سنوارنے کا پورا حق دیا ہے۔ اسی طرح اپنی مالی استطاعت کے مطابق اپنے گھروں کوسامان سے آراستہ کرنا ہمارے ذوق کا آئینہ دار ہے۔ لیکن بلا جوازاملاک وسامان کی خواہش اور دسترس ہمیں زندگی کے اصل مقصد سے بھٹکا دیتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اکثر گھروں کے آگے گیراج سیل یا یارڈ سیل کا بورڈ دیکھا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اپنے گھر کے فالتو لیکن اچھی اور قابل استعما ل حالت والے سامان کو انتہائی کم قیمت پرفروخت کرنا ہے۔ لوگ بڑے منظم طریقے سے اپنے سامان اور چیزوں پر قیمتوں کے labels لگا کر انہیں فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ یارڈ سیل میں توبعض اوقا ت پڑوسی بھی اپنا سامان انچارج شخص کی میز پر ہی رکھ دیتے ہیں۔ اس سامان میں عام گھریلو استعمال کی اشیاء، کھلونے، کتابیں، باغبانی کے آلات وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ کئی بزرگ افراد تو اسے ایک event کی طرح انجواۓ کرتے ہیں۔ ایسی سیلز کا اہتمام عام طور پر spring cleaning کے بعد موسم گرما کے آغاز میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ گھرو ں میں اضا فی سامان اکٹھا نہیں ہوتا۔ متبادل راستہ یہ ہے کہ آپ اپنے اضافی سامان کو charity organizations تک پہنچا ئیں یا ان کو کال کریں تاکہ وہ خود آپ کے گھر سے ساما ن لے جائیں۔ سامان کے بارے میں ہر شخص کا نقطہء نظر الگ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ پرانے سامان کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور کسی قیمت پر اسے خود سے الگ نہیں کرنا چاہتے۔ گھر میں چاہے جگہ ہو یا نہ ہو وہ کسی طرح ایڈ جسٹ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ گاہے بگاہے اپنے سامان کو دیکھ کر اس سے جڑ ی ماضی کی یادوں میں زندہ رہتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ضرورت سے زائد سامان کو وبال جان سمجھتے ہوۓ اس سے فورا جان چھڑانا پسند کرتے ہیں۔ انسان کی سامان سے محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے اطراف آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سامان وغیرہ کو ایک مفت کا جھنجٹ سمجھتے ہیں۔ اور ایک سادہ اور آرام دہ زندگی پر یقین رکھتے ہیں۔

مادی چیزوں کے ساتھ اپنی خوشیوں کو جوڑنا بےمعنی ہے۔ ایک بچہ نئے کھلونے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک اور نیا کھلونا ملنے پر وہ پرانے کو بھول کر نئے کی چاہت میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مادی چیزیں ہمیں صرف وقتی خوشیاں فراہم کرتیں ہیں۔ دنیا میں زندگی گزارنے کیلۓ ہمیں مال واملاک اور سازوسامان کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے حصول کے لئے اپنی پوری زندگی اور توانائ صرف کرنا غلط ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم مال و دولت اور سازوسامان کی محبت میں مبتلا ہو کر حقوق اللہ اور حقوق العباد سے غافل ہو جائیں۔ جب لالچ اور حرص انسان کے دماغ پر غلبہ پا لیتا ہے تو اسے اپنے مال اور سازوسامان میں سے خرچ کرنا گراں گزرتا ہے۔ وہ زکواۃ اور صدقہ وخیرات سے دور ہو جاتا ہے۔ دنیاوی طور پرآگے سے آگے بڑھنے کے چکر میں وہ قوانین وضوابط اور اخلاقی حدوں کو پامال کرنے سے بھی گریزنہیں کرتا۔ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" ایمان اور حرص ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے "۔

ان کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے بہترین مثال ہے۔ آجکل ظاہری شان وشوکت، نمودو نماآش اور دنیاوی مال واسباب میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی دوڑ لگی ہوئ ہے۔ انسان جب اپنی خواہشات کا غلام ہو جاۓ تو وہ دل کا سکون کھو دیتا ہے۔ مال وجائداد میں اضافے، دنیاوی آ سا ئشوں اور سامان کی ریل پیل سے اپنے دلوں کو مردہ مت کیجۓ. اپنے وسائل اور ذوق کے مطابق زندگی گزاریں۔ اپنے گھروں، سازوسامان، زیب وآرائش اور طرززندگی میں میانہ روی اختیار کیجۓ۔ زندگی میں قناعت اور توازن ہی سکون کا باعث ہے۔ مال واسباب کی حرص انسان کو زندگی کے اصل مقصد سے بہت دور لے جاتی ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں

سامان کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی

مقصد ہے اگر منزل، غارت گر ساماں ہو

Check Also

Khawarij Ke Khilaf Karwai Aur Taliban

By Hameed Ullah Bhatti