Regrets
رگرٹس
اگر میں نے فلاں وقت پر یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا تو آج نتیجہ مختلف ہوتا، اگر دوستوں کی بری صحبت میں پڑ کر اپنا سنہری وقت نہ گنوایا ہوتا، ماں باپ کی سنی ہوتی تو آج نتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔ لڑائی جھگڑا کس گھر میں نہیں ہوتا، اگر ذرا سا صبر کر لیا ہوتا تو گھر نہ ٹوٹتا۔ یہ کسے پتہ تھا کہ سائرہ یوں اچانک زندگی سے روٹھ جائے گی۔ وہ میرا کتنا خیال رکھتی تھی، میرا کہنا کبھی نہیں ٹالتی تھی۔ میری کڑوی بات پر بھی اپنی بجھی سی مسکراہٹ کا پردہ ڈال دیتی تھی۔ میرے ہر مشکل وقت میں جانے کہاں سے پہاڑ جتنا حوصلہ لے آتی تھی۔
ظہیر بھائی اپنی شریک حیات کو بڑے والہانہ انداز میں یاد کر رہے تھے، قریب نصف صدی کا ساتھ تھا۔ میں نے پوچھا آپ نے ان کی زندگی میں یہ سب سائرہ سے کہا؟ بولے، کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ اظہار یا تجدید کے لئے نصف صدی بھی کم پڑ گئی۔ ہاں اس کے جانے کے بعد اکثر اس سے ہمکلام رہتا ہوں۔ زیادہ دل بھر آئے، تو اس سے ملنے چلا جاتا ہوں۔ میاں بیوی کا خوبصورت بندھن بھی ہمیشہ ہی تعریف اور سراہے جانے کا محتاج رہتا ہے۔ اپنی جگہ پر اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کچھ اچھا سننے کو مل جائے تو ذمہ داری کا بوجھ کم لگنے لگتا ہے۔
کبھی ان کہی کا بوجھ روگ بن جاتا ہے تو کہیں جانے انجانے میں منہ سے نکلے الفاظ زندگی بھر پشیمان رکھتے ہیں۔ کبھی کسی کے رخصت ہونے کے بعد خیال آتا ہے کہ معاف کرنے اور درگزر کردینے میں ہی بھلائی تھی۔ لیکن انا نے ایسا کرنے سے روک دیا، اب صرف پچھتاوا رہ گیا۔ کبھی محبت کی نا رسائی دل کی خلش بن جاتی ہے، تو کبھی محبت کو پا کر بھی لوگوں کو پچھتاتے دیکھا ہے۔ کیوں کہ شاید محبت دسترس میں آ کر بے وقعت ہو جاتی ہے یا پھر ایک دوسرے سے بے جا توقعات کی خواہش گھر ٹوٹنے کا کارن بن جاتی ہے۔
ایک مستند hospic سوشل ورکرGrace bluerock نے اپنی زندگی کے چھہ سال ایک ہاسپٹل کئیر میں ان لوگوں کے ساتھ گزارے، جو اپنی زندگی کے آخری دنوں، مہینوں یا پھر سالوں میں تھے۔ ان میں ہر ایک کی زندگی کی کہانی بہت مختلف تھی، لیکن پچھتاوے بہت ملتے جلتے تھے۔
Grace کے مطابق ان مریضوں کا پہلا regret یہ تھا، کہ وہ اپنی زندگی میں پیار محبت بانٹنے میں کنجوسی کر گئے، انہوں نے اپنے پیاروں کی قدر نہیں کی۔ انہیں اپنے اپنے رشتوں کے نبھانےمیں کچھ کمیاں محسوس ہوتی تھیں، جیسے اگر ان کو ایک موقع اور ملے تو وہ ان رشتوں کو پوری سچائی اور محنت سے نبھا سکیں۔ کافی لوگوں کو یہ قلق تھا، کہ انہوں نے نو سے پانچ نوکری کے چکر یا پھر دو سے چار پیسے بنانے میں الجھ کر نہ ہی خود کو وقت دیا اور نہ ہی اپنے پیاروں کو۔ جو دولت کمائی، اس کو اپنے لیے استعمال کرنے کا وقت نہ نکال سکے۔
کئی لوگو ں کا ماننا تھا کہ انہوں نے زندگی بزدلی سے جی۔ وہ چیلنجز اور مشکلات کے ڈر سے اپنے محفوظ دائرے میں قید رہے۔ کبھی ہتھیار اٹھا کر لڑے ہی نہیں۔ اگر لڑتے تو زندگی کے معنی کچھ اور ہوتے۔ کچھ نے کہا کہ خدا نے زندگی میں انہیں بہت نوازا لیکن وہ اور سے اور کی تلاش اور اپنے اختیار سے باہر چیزوں کے بارے میں سوچ کر فکر مند ہوتے رہے اور زندگی کو انجوائے نہ کر سکے۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی مرضی پر اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔ کچھ ایسے لوگ جنہوں نے کامیاب ترین زندگی گزاری انہیں یہ پچھتاوا تھا کہ ان کی کامیابی کا کارن ان کا اپنا خواب نہیں تھا۔
یہ وہ نہیں تھا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سے بل تو ادا ہوتے رہے لیکن خواب ادھورے ہی رہے۔ کچھ کو دکھ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچا۔ کبھی کسی کے دکھ درد کا مرہم نہیں بنے۔ اگرکبھی کسے نے دست سوال بھی اٹھایا تو پروا نہیں کی۔ لیکن جب جسم کی ساری توانائیاں ساتھ چھوڑنے لگیں تو ہاسپٹل کے بیڈ پر انہیں اس بات کا احساس ہوا، اس کے بعد بہت سوں نے اپنا مال ومتاع صدقہ خیرات بھی کیا۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ کیا انسانی زندگی regrets کے بغیر ممکن ہے؟ اگر ہم اپنے regrets سے نفرت کرنے کے بجائے انہیں اپنا لیں، تو وہ ہماری موجودہ زندگی کے حقیقی رہنما بن سکتے ہیں۔ خود کو معاف کرکے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی ہمت اور حوصلہ رکھیے۔ ماضی میں زندہ رہنے کے بجائے حال پر نظر رکھیے۔ وقت اور سمجھ کا ساتھ مشکل سے ہی ہو پاتا ہے، کیوں کہ کبھی وقت پر سمجھ نہیں آتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا۔ صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔ اس لئے خدا کی رضا میں راضی رہیے اوراپنے فیصلے سوچ سمجھ کر کیجئے۔