Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Rabta

Rabta

رابطہ

ہمارے گھروں میں اکثر دیکھا گیا ہے، کہ مہمان آرہے ہوں یا پھر ہم بطور مہمان کہیں جا رہے ہوں۔ تو بچے سوال کرتے ہیں کہ آیا مہمان یا میزبان کی فیملی میں ہماری عمر کے بچے بھی ہوں گے؟ اور اگر ہوں تو ان کے لئے بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان کے پاس گفتگو کے لئے باہمی دلچسپی کے بہت سے موضوعات ہوتے ہیں۔ لیکن اگر نوعمر یا حتی کہ جواں سال لوگوں کوکبھی بزرگوں کے ساتھ وقت بتانا پڑے، تو صورتحال کافی مختلف نظر آتی ہے۔ اسے بچوں میں گھبراہٹ اور جواں عمری میں بیزاری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

دوستی عموماً ہم عمر، ہم مزاج یا ہم خیال لوگوں سے کی جاتی ہے۔ آپ کے کلاس فیلوز، اپنی مرضی سے بنائے گئے دوست، کزنز، کولیگز یا وہ لوگ جن کی کمپنی میں آپ انجوائے کریں، آپ کی زندگی میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ہم ان سے اپنے دکھ سکھ بھی بانٹتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اگر بچے آپس میں دوست ہوں، تو اکثر ان کے والدین بھی دوستی کر لیتے ہیں۔ یا کبھی کبھار ملتے رہتے ہیں، جو ایک مثبت قدم ہے۔

کچھ بزرگ تھوڑی ہی دیر پہلے کی باتیں بھول جاتے ہیں۔ کچھ کو چہرے یاد نہیں رہتے، خواہ وہ دل و جاں سے عزیز اپنوں کے ہی کیوں نہ ہوں۔ روزانہ کے آمدورفت کے رستوں کی پہچان میں دشواری، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی، یا ایک ہی سوال کو بار بار دہرانا روزمرہ زندگی سے کچھ مثالیں ہیں۔ ان سب کی وجہ یاداشت کی کمزوری یا اس سے متعلقہ بیماریوں مثلاً ڈیمنشیا، الزائمر کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ جس کو بروقت چیک کرانا بہت اہم ہے۔ اور بلاشبہ ان کی زندگی میں اب کچھ خاص نیا پن بھی نہیں، تو پھر پرانی یادوں کی گر ہیں کھلنا اور بند کرنا ہی رہ جاتا ہے۔

ان کی زبانی بار بار سنے گئے قصے ہمارے لئے غیر اہم ہو سکتے ہیں لیکن بہت ممکن ہے کہ ہمارے بزرگ ماضی کی اسی خوبصورت ریشم سے حال اور مستقبل کے کچھ نئے خواب بننا چاہتے ہوں؟ کئی دفعہ بزرگوں کی کچھ پرانی چیزوں سے جذباتی وابستگی ہمارے لئے جھنجلاہٹ کا باعث بنتی ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ ان چیزوں سے ان کی بہت سی قیمتی یادیں جڑی ہوئی ہوں۔

ہم اپنی نسبتا کم عمری اور کم فہمی کی وجہ سے یہ سب سمجھ ہی نہیں پاتے اور کبھی اس کو ہنسی مذاق کی نذر بھی کر دیتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کل کو یہ کڑا امتحان ہمیں بھی دینا ہے۔ اپنے پیاروں کے ان تمام مسائل سے نپٹنے کے لئے بہت تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے خود کو تیار کرنا ضروری ہے، سمجھنا چاہیے کہ ان کا یہ رویہ کسی ذہنی بیماری کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے، جو ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

بھرے پرے گھر سے بچوں کا چلے جانا، تنہائی، ریٹائرمنٹ، مختلف جسمانی و ذہنی بیماریوں کی آمد، پرانے دوستوں کا دنیا سے رخصت ہو جانا یہ سب انسانی مزاج اور رویوں پر اثر ڈالتا ہے۔ ذہنی مسائل کے شروع ہوتے ہی ان افراد کو طبی بنیاد پر کچھ ایکٹو ٹیز کو چھوڑنا بہر طور ایک احساس محرومی کو جنم دیتا ہے۔ لیکن مضبوط قوت ارادی اور اپنوں کی توجہ اور محبت سے یہ احساس کافی کم ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اپنے پیاروں کے لئے کے لئے سب سے بہترین ٹانک یہ ہے کہ ان کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ صرف اچھی خوراک و ادویات ہی اس مسئلے کا حل نہیں، انکی ذہنی صحت کا خیال بھی اتنا ہی اہم ہے۔

بزرگوں کو ناکارہ ہونے کا احساس نہیں ہونا چاہیے، انہیں معمولات زندگی کے وہ کام جو وہ آسانی سے کرسکیں، کرنے دیں۔ نوعمر بچے بزرگوں کے ساتھ بورڈ گیمز کھیل سکتے ہیں، یا پزلز بنا سکتے ہیں۔ جو ان کے دماغ کے لئے ایک اچھی ایکسر سائز ہے۔ وہ ان کو جدید ایپس استعمال کرنا، آن لائن بینکنگ، آن لائن شاپنگ کرنا سکھا سکتے ہیں۔ اسی طرح پرانی پیڑھی کے پاس جو ہنر اور فنکارانہ صلاحیتیں ہیں، وہ اسے نئی پیڑھی کو سکھا سکتے ہیں۔ بزرگ خواتین سلائی کڑھائی، اون سلائیاں، کروشیا اور روایتی کھانے بچوں کو سکھا سکتی ہیں۔ جسطرح بچوں کو ان کی کمفرٹ زون سے نکالنا ضروری ہے اس طرح بزرگوں کو بھی نئے چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے۔

آج کا بچہ یا نوجوان دنیا بھر کی جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ ہے، جو آجکل تعلیم، ملازمت یا اس کے مستقبل کے لئے ناگزیر ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ زندگی کے معاملات اور مسائل کے بارے میں گوگل سرچ کا عادی ہو رہا ہے۔ اسے بزرگوں کے پاس بیٹھ کر ان سے زندگی کے تجربات سننا بورنگ لگتا ہے۔ اس میں نمایاں دخل ہماری ججمینٹل طبعیت کا بھی ہے۔ ہم مان لیتے ہیں، کہ بزرگ افراد کا چڑچڑا ہونا لازمی ہے، ان کے سامنے ہنسی مخول کریں تو انہیں برا لگتا ہے۔ وہ ہر بات پر روک ٹوک کرتے ہیں۔ یا نوعمر بچوں کا لاپرواہ یا بات نہ سننا تو شرط ہے۔

نئی جنریشن تو ہم سے قطعی الگ ہے۔ وہ کیوں بزرگوں کے ساتھ بیٹھیں گے؟ کیا ہم نے کبھی اس سلسلے میں کوشش کی ہے؟ سچ یہ ہے کہ پرانی اور نئی پیڑھی کی سوچ مختلف ہو سکتی ہے، لیکن بہادری یہ ہیے کہ اس اختلاف کے بارے میں بات کی جائے، اسے سمجھا جائے۔ اور بزرگوں کو وقت دے کر، گفتگو کرکے ان سے اپنے رابطے کو ٹوٹنے نہ دیا جائے۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf