Pehnawa
پہناوا
لباس خداوند تعالی کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک ہے۔ لباس انسان کو ڈھانپنے کے علاوہ اسے سردی گرمی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی خوبصورتی اور زینت میں اضافہ کرتا ہے۔ انسان پیدائش کے ساتھ ہی کپڑے میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ پھر اسے رخصت بھی سفید لباس میں کیا جاتا ہے۔ ہزاروں سال قبل انسان جسم ڈھا نپنے کے لئے کیلے اور انجیر کے پتوں کا استعمال کرتا تھا۔ جانوروں کی کھال کو سی کر پہنتا تھا۔ سوت کاتنے والی اور سلائی مشینوں کی ایجاد سے لیکر کپڑوں کی جدید صنعتوں کے قیام تک انسانی پہناوے کے ارتقاء کاسفر جاری وساری ہے۔ کپڑوں کی الماری گویا یادوں کی پٹاری۔ جس میں ہم منگنی، شادی، سالگرہ اور عیدین وغیرہ کے جوڑے بڑے پیار اور دلار سے سنبھالے رکھتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے ملبوسات سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، اور انہیں خود سے جدا کرنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ خواتین کو اپنی الماری میں رکھے کپڑے اکثر کم ہی محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس کچھ لوگ اپنے چند جوڑوں میں بہت مطمئن محسوس کرتے ہیں اور بوقت ضرورت یا کسی خاص موقع پر ہی نئے ملبوسات بنوانا پسند کرتے ہیں۔ آج کل نئی نسل شادی، بیاہ اور ولیمے کی تقریبات پر بھاری بھرکم اور بیش قیمت جوڑوں کے بجائے جدید اور ہلکے پھلکے کامدانی ملبوسات کو ترجیح دیتی ہے۔ جنہیں بکسوں میں یادگار کے طور پر محفوظ رکھنے کے بجائے دوبارہ بھی استعمال کیا جا سکے۔
مختلف برانڈز کے تیار شدہ ملبوسات نے زندگی میں کافی آسانی پیدا کر دی ہے۔ جاب، روزمرہ اور خاص تقریبات کے حوالے سے بنائے گئے یہ ملبوسات کافی مقبول ہیں۔ کپڑا خرید کر درزیوں کی دکان کے چکر لگانے کے بجائے آپ بجٹ کے مطابق اپنی پسند کا تیار شدہ لباس خرید سکتے ہیں۔ لیکن آج بھی بہت سی خواتین کھلے کپڑوں سے سوٹ سلوانے اور دوپٹّے رنگوانے میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی ملبوسات اپنی کوالٹی، تنوع اور سٹائل میں اپنی مثال آپ ہیں۔ آن لائن شاپنگ کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی آسانی سے مختلف برانڈز اور ڈیزائنرز کے ملبوسات کی فراہمی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں ڈیزائنرز اور ملبوسات کے حوالے سے لوگوں میں مقابلہ بازی کا رحجان بھی توجہ کا باعث بنا۔ کئی تقریبات میں ایسے سوال بھی سماعت سے ٹکرائے کہ آپ کا سوٹ کس کا ہے؟ معنی یہ ہوئے کہ کون سے ڈیزائینر کا ہے؟ ملبوسات کی نئی کلکیشن آنے پر سٹورز پر خواتین کی دھکم پیل اور تلخ کلامی کی ویڈیوز بھی وائرل ہونے لگیں۔ مارکیٹ میں بیش قیمت ملبوسات کی نقل کم قیمت پر دستیاب ہونے لگی۔ گویا ایک دوڑ اور مقابلے کی فضا کا احساس پیدا ہونے لگا۔
پہناوے کی بنیاد پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے رویے کو فروغ ملتا نظر آنے لگا۔ جب کہ در حقیقت یہ دوڑ لاحاصل اور مقابلہ بے معنی ہے لیکن پھر بھی لوگ اس کا حصہ بنتے دکھائی دیے۔ اگرچہ آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جو اس ہجوم میں شامل ہونے کے بجائے اپنی چادر کے مطابق، اپنے انداز اور سٹائل میں لباس پہن کر بہت خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ ہر نئے فیشن اور انداز کی دوڑ کا حصہ نہیں بنتے اور اپنے طریقے سے زمانے کے ساتھ چلتے ہیں۔
ملبوسات میں رنگوں کا ذکر چھیڑیں، تو سرخ، سبز، دھانی، لال گلابی، نیلا، پیلا، بنفشی، زعفرانی، سیاہ سفید ہر رنگ لاجواب ہے۔ کہیں کھلتے ہوئے شوخ رنگ کسی کی پسند ہیں تو کہیں ہلکے ملگجے رنگ کسی کو بھا تے ہیں۔ کہیں جوان عمری سادگی اور متانت کا لبادہ اوڑھے نظر آتی ہے تو کہیں بڑھاپا شوخ رنگوں سے آراستہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یعنی اس معاملہ میں دنیا کی پروا چھوڑیں اور دل کی سنیے۔ رنگوں کی بھی اپنی ایک زبان ہے یہ براہ راست دل تک پہنچتے ہیں۔
لباس ہمارے ذوق اور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے پہناوے میں قیمت کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ مناسب یا نسبتا کم قیمت میں بھی دیدہ زیب اور معیاری ملبوسات کا انتخاب کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ ملبوسات کا قیمتی ہونا ضروری نہیں بلکہ ان کا شخصیت پر جچنا ضروری ہے۔ اپنی جیب کے مطابق نفیس لباس کا انتخاب یا اس کو سراہنا قطعا برا نہیں۔ لیکن پہناوے کی بنیاد پر کسی کو عزت یا اہمیت دینا اور کسی کو کمتر خیال کرنا اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے۔ کسی بھی انسان کا اصل تعارف اس کا کردار اور انداز فکر ہے۔ سو اس کی شناخت بھی اس کے خیالات اور نظریات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔