Musbat Rawaiya
مثبت رویہ
آج positivty کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یعنی زندگی کی طرف ہمارا پرامید رويہ ۔ انسانی زندگی دھوپ چھاؤں، نشیب و فراز، یاسیت اور ا ميد کا نام ہے اور بے شک زندگی کی ناہموارياں اور جدوجهد انسانی ر ویے پر اثرانداز ہوتی ھيں۔ پھر یہ رویہ ہمار ے رشتوں، کام اور ہماری روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے ۔
پرامید سوچ اور خوش رہنے کا براہ راست تعلق ہے۔ مثبت رویہ انسان کو خود اعتمادی اور سر بلندی عطا کرتا ہے اور اس کے اندر کی منفعیت اس کو بے وقعت کر دیتی هے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو منفرد خوبیوں اور اوصاف سے نوازا ہے۔ اپنی زندگی میں کامیاب ہونے اور دینی و دنیاوی طور پر کسی منتخب شدہ مقام پر پہنچنے کے لئے خدا تعالیٰ کی رضامندی اور اس کے بعد خود پر یقین ہونا بہت اہم ہے ۔ مثبت رویہ ہی خود پر یقین کا پہلا قدم ھے۔
صبح بیدار ہوتے ہی اپنے رب کا شکر ادا کریں جس نے آپ کو زندگی کا ایک نیا خوبصورت دن عطا کیا اور اس بات کا ذمہ دار آپ کو ٹھہرایا کہ یہ دن آپ کس طرح سے گزارتے ہیں ۔ اللہ سے اپنے تعلق کو نماز کے ذریعے جوڑیں اور وہ قلبی سکون حاصل کريں جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ دن کے دوران گھر میں، دفتر میں یا اپنے اطراف کے لوگوں میں کوئی اچھی بات یا جملہ یا پھر شکریہ کہہ کر اپنے دن کو مزيد روشن کر سکتے ھيں۔ شکریہ کہنے کے لیے کسی بڑے موقع کا انتظار نہ کریں کیو نکہ انسانی زنددگی بہت بے اعتبار ھے۔
زندگی میں ہمیشہ کچھ نیا سوچنے اور سیکھنےکی کوشش کرتے رہیں اس سے جمود طاری نہیں ہوتا ۔ نئے راستے کھلتے ہیں کچھ نیا سیکھنے کی سوچ اورر خواہشں آپ کو توانائ فرااہم کرتی ہے۔ جس دن آپ سیکھنا چھوڑ دیں گے۔ آپ کی positivity بھی ختم ہو جائے گی۔ نئی چیزیں سیکھنے میں کبھی بھی ججھک محسوس نہ کریں۔ آپ اپنے گھر کے اندر ہی کوئی نیا مشغلہ تلاش کرسکتے ہیں ۔اس کے لیے آپ کو باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے لئے وقت نکا لیں۔ اپنے گهرکی setting کو بدل دیں، نئے پودے خرید کر لائیں، کهانے کی میز پر new dish بنائیں۔ کچھ بھی ایسا کریں جس سے آپ کو تازگی اور تبدیلی کااحساس ہو۔
اپنی family، دوستوں اور ان لوگوں کے لئے وقت نکالیں جنهیں آپ کی ضرورت هے۔ کہاوت ہے کہ بانٹنےسے غم ختم نہ بھی ہو لیکن ہلکا ضرور ہو جاتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہماری والدہ صا حبہ سے ملنے گاہے بگاہے خواتین آیا کرتیں تھیں ان کے آنے پر نہ صرف والدہ صا حبہ خوش ہوتیں، بلکہ ہم بچے بھی خوشی کا اظہار کرتے تھے کہ الحمدللہ گھر میں کوئی مہمان آیا ہے ان کے لئےوقت کےمطا بق خاطر داری کا بھی انتظا م کیا جاتا۔ کچھ وقت والدہ سے باتیں کرنے کے بعد وہ خواتین اپنے گھرون کو لوٹ جاتی تھیں۔ یہ اپنے دل کی باتیں کرنے اور دکھ سکھ بانٹنے کا ایک طریقہ تھا ۔لیکن وقت کی تیز رفتار نے جہا ں بہت سی اقدار کو بدل ڈالا، وہاں ہم نے دکھ سکھ کی اس سا نجھ کو بھی کھو دیا۔ اکبهی وقت کی کمی آڑے آتی رهی توکبهی زندگی کی بهاگ دوڑ۔ بعض اوقات تو ایک ہی گھر کے اندر رہنے والے افراد بھی ایک دوسرے سے دور دور نظر آتے ہیں ۔
چند سال پہلے مجھے کینسر وارڈ میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا وہاں مریض اس وقت chemotherapy لے رہے تھے وہ جانتے تھے کہ یہ دوائیں ان کے جسم پربہت سے منفی اثرات چھوڑ جائیں گی لیکن کینسر جیسے موذی مرض کے خاتمے کی امید ان کی آنکھوں کو ایک نئی امید دے رہی تھی اور اسی امید کا نام مثبت سوچ ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق مریض کی صحت یابی میں اس کی مثبت سوچ اور امید اہم کردار ادا کرتی ہے۔
قادر مطلق نے انسان کو بحثیت اشرف المخلوقات پیدا کیا اسے عقل و دانش، یقین کا مل اور زوربازو عطا کیا۔ اللہ تعالی نے انسا نوں کو مختلف حالا ت اور رہن سہن سے نوازا۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ خارجی عوامل انسان کے رویہ پر اٹرانداذ ہوتے ہیں۔ زندگی کی مشکلات سے نپٹنے کے لیے پہلے اللہ تعالی اور پھر خود پر یقین کے سا تھ پوری توانائئ صرف کرنا، اور اللہ تعالی کی رضا میں راضی رہنا ہی positivity ہے۔
آج کل COVID-19 کی وجہ سے ہماری انفر ادی اور اجتماعی زندگی پر کافی اثر ہوا ہے۔ اور اس کڑے وقت میں اپنی سوچ اور خود کو positive رکھنے کی بہت ضرورت ہے۔ چلیں آج آغاز کرتے ہیں ۔ positivity کی شمعع روشن کریں اور اپنے اندر، اطراف اس روشنی کو پھیلا ئیں۔