Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Main Aur Meri Jagha

Main Aur Meri Jagha

میں اور میری جگہ

انسان اس زمین پر اتنا وقت ہی لے کر آتا ہے جتنا اس کے رب کی طرف سے عطا کیا جائے۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں، محنت اور فہم و فراست سے زندگی بسر کرتا ہے اور اپنا وقت ختم ہونے پر اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ لوگ چلے جاتے ہیں، لیکن دنیا کا نظام جاری وساری رہتا ہے۔ اس کے پیاروں کے پاس صرف اس کی یادیں رہ جاتیں ہیں۔ درد دل رکھنے والے افراد جانے والوں کی اچھی باتیں یاد رکھتے ہیں۔

انسانی فطرت ہے کہ ہمیں اپنی ذات کے حوالے سے دوسروں کی طرف سے کی گئی منفی بات کبھی نہیں بھولتی۔ اور ہم اسے اکثر دہراتے بھی ہیں۔ بچپن اور بڑھاپا وہ ادوار ہیں جن میں انسان اپنی ضروریات زندگی کے لئے دوسروں پر انحصار کرتا ہے، لیکن جواں عمری میں اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ جس میں ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ حالات و واقعات ہماری مرضی اور خواہشات کے تابع ہیں لیکن یہ سب عارضی ہوتا ہے۔

ہم اکثر اس قسم کی گفتگو سنتے ہیں کہ میں نے تو محفل میں کسی کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا، کسی کی کیا مجال جو مجھے جواب دے۔ میں تو فضول بات کا منہ توڑ جواب دیتا/دیتی ہوں۔ میرے جیسا کام تو کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ مجھے تو سب آتا ہے، مجھے کچھ بھی نیا سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی آپ سے اپنی مشکلات یا تکالیف کا ذکر کرے، تو آپ اس کو حوصلہ دینے کے بجائے اپنی تکالیف کا پنڈورا باکس کھول لیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ کسی کی مدد کرنے یا کام آنے کے بعد اس کا اشتہار لگانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے جتانا اور خود کو منوانا چاہتے ہیں۔ نیکی کرکے آگے بڑھ جائیں۔

اگر آپ کسی ادارے میں دس سے بیس سال تک کام کر رہے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب وہاں آپ کے لئے سیکھنے کے لئے کچھ نہیں رہا، یا آپ نئے آنے والوں کو کچھ نہیں سکھا ئیں گے۔ یا پہلے ہی دن ان سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ ہر کام پرفیکٹ طریقے سے کریں۔ اگر آپ ملازمت چھوڑ بھی دیں یا ریٹائر ہو جائیں تو آپ کی جگہ خالی نہیں رہے گی، فورا پر ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے نیا آنے والا آپ سے زیادہ بہتر ہو۔ لوگ نئے انداز فکر اور نئے جذبے کے ساتھ کام کرنے آئیں تو ان پر نکتہ چینی کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنی فیملی یا کولیگز سے یہ امید رکھنا کہ ہر چیز اور کام میری مرضی یا میرے مطابق ہو، یا پھردوسروں کی رائے کو رد کر دینا غلط ہے۔

جو لوگ صرف خود کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہ زندگی میں کبھی welcoming نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی انہیں کسی دوسرے کا کام پسند آسکتا ہے۔ نہ ہی وہ کسی کے لئے تعریفی کلمات کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جب کوئی لڑکی جوائنٹ فیمل سسٹم میں بیاہ کر آتی ہے تو اکثر سسرال کی تنگ نظری اور تنگ دلی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ساس کے مقام پر فائز خاتون کے لئے کبھی بیٹے کی محبت کو بانٹنا مشکل ہو جاتا ہے تو کبھی بہو کے لئے دل میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح کہیں نئی آنے والی ماں باپ کی محبت اور قربانی کو فراموش کرکے ان کے دل پر پاؤں رکھ کر چلنا چاہتی ہے۔ آج بھی بیٹی کی کوتاہی نظر انداز کر دی جاتی ہے لیکن بہو کی غلطی کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں سب تہس نہس ہو جاتا ہے، اور تا حیات فاصلے جنم لیتے ہیں۔ لیکن جن گھروں میں اکٹھے رہ کرایک دو سرے کو Space دی جاتی ہے۔ وہ گھرانے محدود وسائل کے با وجود ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔

ہم اپنے پیاروں کو جہاں چھوڑ کر آتے ہیں، وہیں ہمیں بھی جانا ہے ہے۔ زیر زمین وہ جگہ کہاں ہوگی؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ دنیا کو ایک شخص کے جانے سے کوئ فرق نہیں پڑتا، زندگی اسی طرح رواں دواں رہتی ہے۔ تو پھر جب تک ہم زمیں کے اوپر ہیں، اپنی ذات سے میں کو نکال کر دوسروں کو جگہ کیوں نہ دیں؟

میں بڑا اہم تھا

یہی میرا وہم تھا

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem