Maa Ass Pass He Hai
ماں آس پاس ہی ہے
وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ گھر کے آنگن میں شور مچاتے، کھیلتے، لڑتے جھگڑتے بچے کب گھر کی دہلیز سے نکل کر اپنی دنیا بسانے نکل پڑتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔ آبائی گھر اور ان کے مکین خاموشی کی چادر اوڑھے جانے والوں کی راہ تاکتے رہتے ہیں۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے تو ماں باپ کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔ بچوں سے باتیں کرکے گویا ڈھیروں خوشیاں مل گئیں ہوں۔ لڑکپن اور جوانی کی عمر سے نکل کر بچوں کی سمجھ میں آتا ہے۔
کہ ان کو پالنے پوسنے اور کسی مقام تک پہنچانے کے لئے ان کے والدین نے کتنی کٹھنائیوں کا سفر طے کیا ہوگا، کتنے کانٹے دار راستوں پر چلے ہوں گے۔ ان کے امتحانات میں کامیابیوں کے پیچھے کتنی دعائیں اور رت جگے شامل رہے ہوں گے۔ کب ہم نے اپنی لا ابالی عمر اور نا دانستگی میں ان شفیق ہستیوں کا دل دکھا دیا ہوگا۔ جو دنیا میں ہمیں سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ہماری خطاؤں کو معاف کرکے ہر حال میں ہماری سلامتی کے لئے ہی دعا گو رہتے ہیں۔
ہماری کسی بات پر ان کا دل ٹوٹا بھی ہوگا، یا آنکھیں بھر آئیں ہوگی تو پھر بھی انہوں نے کچھ بہانہ بنا کر بات کو ٹال دیا ہوگا۔ اپنی اہم ضرورتوں کو ہماری بوٹی سے چھوٹی خواہش کے لئے قربان کر دیا ہوگا۔ خاص طور پر یہ مائیں تو بہت فنکار ہوتی ہیں۔ اولاد کی ساری خطاؤں پر ایک سیکنڈ میں اپنی محبت اور شفقت کا پردہ ڈال دیتی ہیں۔ اپنے بچوں کو پالنے اور پروان چڑھاتے وقت جانے کہاں سے اتنی طاقت لے آتیں ہیں کہ پوری دنیا سے ٹکرا جائیں۔
ان کے پیدا ہوتے ہی اپنے رنگ برنگے خوابوں کو پنکھ لگانا شروع کر دیتی ہیں۔ میری بیٹی ڈاکٹر بنے گی، میرا بیٹا انجینر بنے گا۔ اپنے بچے کے لئے خواب اور خواہشوں کے تانے بانے بنتی ہیں۔ اور ان کے پورا ہونے کے بعد ماں اسی میں خوش رہتی ہے کہ اس کے بچے قابل ہیں اور وہ اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ اپنے لئے کسی بھی فائدے، اور خواہش کے بغیر وہ بچوں کی خوشی میں خوش رہتی ہے، اپنے بچوں کی کامیابیوں کا ذکر سب ملنے والوں سے بڑھا چڑھا کر کرتی ہے۔
اب اس کے لگائے گئے پودے تن آور درخت بن چکے ہوتے ہیں، وہ ان کی چھاؤں میں بیٹھ کر آرام کرے یا نہ کرے، اپنی دعائیں اور محبتیں ان پر تاحیات نچھاور کرتی ہے۔ اور اس فانی دنیا کو چھوڑنے کے بعد بھی ماں ہمارے آس پاس ہی تو رہتی ہے۔ کتنے دکھ سکھ ہیں، جو ہم اکیلے میں ماں کے ساتھ بانٹتے ہیں، ارے بھئ ماں کے سامنے رونے میں کیسی شرم؟ ماں تو بچپن سے آنسو پونچھتی ایی ہے۔
کبھی ہمارے، تو کبھی اپنے اور کبھی ہمارے سانجھے آنسو۔ ویسے من کتنا ہلکا ہو جاتا ہے نا؟ جو بات پوری دنیا میں کسی سے نہیں کہہ سکتے، چپکے سے ماں کو بتا دیتے ہے۔ اور اب تو وقت کا پہیہ گھوم چکا ہے، اب میں ضدیں ماننے، ناز نخرے اٹھانے اور ساری فکریں اپنے اندر سمو لینے والی جگہ پر آ گئی ہوں۔ جب بچے مجھے امی جی کہہ کر کام یا میری ڈانٹ سے بچ جاتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں کہ دیکھا ہمیں پتہ ہے کہ ماما کی ڈانٹ سے کیسے بچنا ہے۔
انہیں کیا پتہ کہ جب میں ان پر حملے کی پوری تیاری کر لیتی ہوں تو ان کے امی جی کہنے پر کوئی شفیق چہرہ آنکھوں کے سامنے آ کر مسکراتے ہوۓ کہتا ہے، نہیں جانے دو، بچے ہی تو ہیں۔ ویسے بھی مائیں تو جھلی ہی ہوتیں ہیں، تم بچوں کا پیار ہی تو ہمیں جھلا بناتا ہے۔
مجھے سب یاد ہے
کہ میں جس طرح سے پلا بڑھا
تیری گود، تیری شفقتوں میں ہوا جواں
تیرے پاس حرف دعا تو ہے
میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ماں
آپ کے پاس ماں جیسا خوبصورت رشتہ موجود ہے، تو اس کی قدر کیجئے، اگر آپ اس رشتے کو کھو چکے ہیں تو اسکی یادوں کے گلاب کو ہمیشہ اپنے دل میں مہکنے دیں، اپنی دعاؤں سے اسکی آبیاری کریں، ویسے بھی ماں بھولتی ہی کہاں ہے؟ ہر وقت تو ہمارے آس پاس ہی ہوتی ہے۔ اگر آپ خود ماں ہیں تو اپنے بچوں سے پیار اور ان کی قدر کریں۔ اس خوبصورت اور انمول رشتے کے ریشم کو مت الجھا ئیے، کیوں کہ اس رشتے کا متبادل ملنا نا ممکن ہے۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے