Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Khud Se Jang

Khud Se Jang

خود سے جنگ

ایک سپاہی اپنی لڑائی میدان جنگ میں لڑتا ہے، جس کی کامیابی کے لئے وہ جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ غور کیا جائے تو اپنی زندگی میں ہم سب کہیں نہ کہیں اپنی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ مالی مشکلات، بیروز گاری، خانگی یا صحت کے مسائل، بچوں کے مسائل، جن سے ہم نبردآزما رہتے ہیں۔ اور پھر ہاتھ پاؤں مار کر ان سے باہر بھی نکلتے ہیں۔ لیکن ایک لڑائی انسان کی خود اپنے آپ سے بھی ہوتی ہے، جس میں وہ اکثر مار کھا جاتا ہے۔ کیوں کہ شاید یہی محاذ سب سے کٹھن ہے۔ یہاں گرنے اور پھسل جانے کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں۔

اپنے منفی رویوں مثلاً غم و غصہ، نفرت، شک، حسد، تنہائی، ناکامی، ڈر، ان سب پر قابو پانے کو کوشش کرنا سب سے مشکل جنگ ہے۔ کیونکہ یہ زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں۔ اپنی ناکامی یا کوتاہی کی ذمہ داری خود قبول کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنی آسانی سے اسے دوسروں کے ذمہ ڈال دینا۔ کسی دوسرے کی اچھائی کی تعریف کے لئے الفاظ اکثر کم پڑ جاتے ہیں، کیوں کہ ہم دل بڑا کر ہی نہیں پاتے۔ بلکہ کبھی تو کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے حسد کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔

ہر انسان اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں اس کا شکار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ آپ کی زندگی پر منفی طرح سے اثر انداز ہو تو تشویش کی بات ہے۔ دوسروں سے متاثر ہو کر خود کو بہتر بنا لیں، تو حسد بھی برا نہیں۔ اپنی گفتگو اور رویوں سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث مت بنیں۔ قوت گفتار تو ایک خوبی ہے ہی، سچ تو یہ ہے کہ کبھی خاموش رہنا اور درگزر کر دینا بھی طا قت بن جاتا ہے۔ اگر یہ محسوس ہو کہ اس وقت میری خاموشی میری گفتگو سے کہیں بہتر ہے، تو خاموش ہی رہیں۔ کبھی جواب دینے کا حق وقت اور حالات کو دے دیا کریں۔

محفل کے دوران دوسروں کو بولنے یا اظہار رائے کا موقع دیں۔ اپنے علم یا تجربے کو زبردستی اور یک طرفہ ان تک نہ پہنچائیں۔ کچھ لوگ اچھی خاصی آرام دہ زندگی کو خود ہی مصیبت بنا لیتے ہیں۔ جب وہ دوسروں سے مقابلہ و موازنہ شروع کرتے ہیں، اپنی ہی قابلیت پر شک، یا پھر ناکامی کے خوف سے گھبرا کر کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ خوف یا ڈر کو شکست دینے کا بہترین طریقہ ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔

جو داد کے قابل ہو اسے دیجئے داد

دشمن ہی سہی، ظرف تو عالی رکھیے

جب آپ اپنے جذبات، کرداراور اعمال کی ذمہ داری خود سنبھالتے ہیں۔ تو آپ وہ کام کرتے ہیں جس سے خدا راضی اور آپ کا ضمیر مطمئن ہو۔ لوگ کیا کہیں گے؟ کی وقعت ختم ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی تنگ نظری اور منفعیت آپ کی ترقی اور خوشی کی راہ میں دیوار نہیں بنتی۔ آپ لوگوں کی فضول باتوں پر کان دھر نے کے بجائے اپنی توانائی مثبت کاموں کے لئے بچا کر چھوڑتے ہیں۔ تب آپ نیکی کرکے اس کا اشتہار نہیں چھپواتے۔ تب آپ صلے کی تمنا اورستائش کی آرزو سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

ہم کوئی نیکی کرکے دوسرے کی طرف سے فوری ردعمل کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو صلہ ذرا دیر سے ملے یا ملے بھی تو آپ اسے سمجھ ہی نہ پائیں۔ یا جو کچھ آپ کے پاس ابھی موجود ہے، وہ بھی آپ کے کسی اس فعل کا صلہ ہو جو خدا تعالی کو بہت پسند آیا ہو۔ ہم جلد باز تو ہیں۔ کبھی تو خدا سے بھی گلہ کرنے لگتے ہیں کہ میں نے تو کبھی کچھ برا کیا ہی نہیں تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں؟ یہاں پر ہم ایمان کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

خود کو سمجھنے سی پہلے لوگ اور دنیا ہمیں سمجھ نہیں آسکتے۔ لوگ آپ کی زندگی کا کنٹرول صرف ایک صورت میں سنبھالیں گے، جب آپ ان کو اجازت دیں گے۔ آپ اہم ہیں لیکن اس کے لئے دوسروں کو غیر ضروری مت ثابت کریں۔ اپنی اہمیت اور قابلیت کو مادی چیزوں سے مربوط نہ کریں۔ آپ کی ذات اور قابلیت کم قیمت یا بیش قیمت ملبوسات میں یکساں رہے گی۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ آپ کو اپنے انداز فکر سے دیکھیں، لیکن آپ کا اعتما د اور خود پر یقین سب سے اہم ہے۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf