Kho Na Jaen Ye Taare
کھو نہ جائیں یہ تارے
گڈوبیٹا جاؤ، ذرا دکان سے آدھا کلو چینی لے آؤ۔ پانچ بچوں میں گھری جمیلہ نے بیٹے کو پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ اماں ٹافی کے پیسے بھی دونا۔ جواب میں اماں سے گھوری ملنے پر سات سالہ گڈو دروازے سے باہر نکل گیا۔ جب دکان والا چاچا چینی تول رہا تھا، تب بھی گڈو للچائی نظروں سے ٹافیوں کا مرتبان دیکھ رہا تھا۔ چاچے نے چینی تولتے ہوئے گڈو کے من کی مراد بھی جان لی تھی۔ اسی لئے اس نے چینی کا لفافہ دیتے ہوئے، ساتھ ٹافی بھی پکڑا دی، تو گڈو نے حیرت سے اسے دیکھا۔ چاچا پیسے نہیں ہیں؟ چل یار گڈو، رکھ لے۔
گڈوخوشی سے بھاگتا ہوا گھر پہنچا اور کہا اماں، اماں چاچے نے مجھے ٹافی بھی دی ہے؟ پر چار بچوں کی للکار اور چولہے میں پھونکیں مارتی جمیلہ کو گڈو کی آواز بھلا کہاں سنائی دیتی؟ وہ تو بس تھکے ہوئے مزدور خاوند اور پانچ بچوں کی روٹی ہانڈی میں لگی تھی۔ گڈو نے بھی بہتر سمجھا کہ ایک ٹافی کو چار چھوٹے بہن بھائیوں سے چھپا کر کھا جانے میں ہی عقل مندی ہے اور پھر گڈو سلیم چاچا کی دکان پر جانے کے بہانے ڈھونڈتا اور سکول سے سیدھا گھر آنے کے بجائے کچھ دیر سے آتا۔ لیکن گھر میں کوئی بھی اس بات کو نہ جان سکا اور اسی بے خبری میں ایک اور معصوم پھول کو مسل دیا گیا۔
جمیلہ کے بین سننے والوں کا دل دہلا رہے تھے۔ وہ اپنی بے خبری پر خود کو کوس رہی تھی۔ لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ سلیم چاچا کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ضرور تھیں لیکن نہ تو یہ گڈو کے ناحق خون کے انصاف کی ضامن تھیں اور نہ ہی گڈو، ماں باپ کے زخموں پر مرہم رکھنے واپس آ سکتا تھا۔ ایک اور ستارہ کھو گیا تھا۔۔
اماں، مجھے وہ لال بالوں والے انکل سے بہت ڈر لگتا ہے؟ وہ جب بھی ہمارے گھر آتے ہیں تو مجھے ان سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ آپ ان کو گھر آنے سے منع کر دیں۔ بچی نے ڈرے سہمے لہجے میں اپنی والدہ کو بتایا۔ ارے نہیں بیٹا، وہ انکل تو بہت اچھے ہیں تمہارے بابا کے دور کے رشتے دار ہیں۔ لیکن اماں سنو تو۔۔ بس بیٹا چپ، جاؤ جا کر ہوم ورک کرو۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آتا ہے بہت سی مائیں سر پکڑ کر روتی رہ جاتیں ہیں کہ کاش اس دن اپنے لخت جگر کی بات سن لی ہوتی۔ اسے چپ نہ کروایا ہوتا تو گھر کا ستارہ یوں نہ بجھتا۔۔
ہم اپنے گھر، جائداد کے کاغذات، روپیہ پیسہ اور زیورات سب بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ تو پھر اپنی متاع عزیز یعنی بچوں کے معاملے میں غافل کیسے ہو جاتے ہیں؟ اپنے بچے کے معاملے میں اپنی آنکھیں اور کان ہمیشہ کھلے رکھیں۔ اس کی حفاظت کے سلسلے میں کسی پر مکمل اعتماد اور یقین مت کریں۔ بچے کو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا سکھا ئیں۔ اسے گڈ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتائیں۔ رشتوں کا احترام اپنی جگہ پر لیکن بچے کو اپنی حفاظت کے لئے بنیادی باتوں سے آگاہ کریں۔ یہ بھی اس کی تربیت کا حصہ ہیں۔
آپ کے بچے کا مجرم کوئی قریبی بھی ہو سکتا ہے اور کوئی اجنبی بھی۔ گھریلو ملازمین پر اندھا اعتماد بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سکول سے واپس آنے پر بچوں سے بات چیت بہت ضروری ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ اکثر ہمارا گھٹن زدہ معاشرتی نظام بچوں کے جسمانی استحصال پر، پردہ ڈال دیتا ہے۔ خاص طور پر جب مجرم کوئی بہت قریبی ہو۔ کبھی بچہ کسی بات یا خوف کی نشاندہی کرے، تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر بچے کسی جسمانی استحصال کا شکار ہو جائے تو اسے خاموش رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ خاموشی اس کے اندر ندامت، خوف اور شرمندگی کا جو طوفان لاتی ہے اکثر اس سے نکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
بحیثیت والدین اپنے بچے سے بات چیت کے دروازے کو ہمیشہ کھلا رکھیں۔ اگر آپ نے اس پر اپنے خوف اور حاکمیت کا تالا لگا دیا۔ تو بچہ اپنی الجھن آپ سے شیئر نہیں کر سکے گا۔ اس سلسلے میں اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے۔ والدین کی طرح اساتذہ کو بھی بچے کے رویے میں غیر معمولی تبدیلی، جیسے ڈر، خاموشی یا اداسی، کھانے میں عدم دلچسپی، یا بھوک کا ختم ہو جانا، تعلیمی کارکردگی میں بدلاؤ وغیرہ پر نظر رکھنی چاہیے۔ بحثیت ایک ذمہ دار شہری اگر ہمیں اپنے قرب و جوار میں اس حوالے سے کوئی مشتبہ شخص نظر آئے، تو اس کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے۔
بچپن میں پیش آیا گیا ذہنی یا جسمانی استحصال کا واقعہ تمام عمر انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ اگر ایسے واقعات کو بچپن میں دبا دیا جائے یا بچوں کو ڈرا کر خاموش کر دیا جائے تو یہ ان کے بالغ ہونے پر ایک گہرے زخم کی صورت میں موجود رہتے ہیں اور مستقبل میں ان کے ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن کا باعث بنتے ہیں۔ والدین کی پوری توجہ کے علاوہ ماہر نفسیات اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ بچہ خود کو قصور وار اور دوسروں سے الگ نہ سمجھے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حادثے کا شکار ہر بچہ ان تک رسائی کی پہنچ نہیں رکھتا۔ ایسے حادثات کے مجرمین کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ اس جرم کو اپنی عادت نہ بنائیں۔۔
دیکھو انہیں، یہ اوس کی بوندیں
پتوں کی گود میں آسمان سے کودیں
انگڑائی لیں پھر کروٹ بدل کر
نازک سے موتی ہنس دیں، پھسل کر
کھو نہ جائیں یہ تارے زمین پر۔۔
یہ تو آشا کی لہر ہیں
یہ تو امید کی سحر ہیں
خوشیوں کی نہر ہیں
کھو نہ جائیں یہ تارے زمیں پر۔۔