Kar Bhala, Ho Bhala
کر بھلا، ہو بھلا
آن لائن شاپنگ نے زندگی میں بہت سہولت پیدا کر دی ہے۔ بیرون ملک رہنے والوں کے لئے پاکستان سے معیاری اور جدید زنانہ و مردانہ اور بچوں کے ملبوسات کی فراہمی کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہاں اگر کبھی alteration یا کسی سلائی میٹیریل کا مسئلہ آن پڑے، تو اس کے لئے بھی یہاں ٹیلرز وغیرہ کی سہولیات موجود ہیں۔ اسی سلسلہ میں کئی سال پہلے میری ملاقات شیتل کور سے ہوئی۔
میرا کام ہو گیا، لیکن شیتل میں کچھ ایسی بات ضرور تھی کہ وہ دل و دماغ کے کسی کونے میں محفوظ رہ گئیں۔ اس کے بعد سال میں خواہ دو سے تین دفعہ ان سے ملاقات ہو، لیکن وہ ملاقات مجھے ضرور یاد رہتی۔ کچھ دن پہلے انکی دکان پر فون کیا تاکہ اوقات کار کے متعلق پوچھ لوں۔ کیونکہ COVID-19 کی وجہ سے معمولات میں کچھ تبدیلی بھی ہوئی ہے۔
میں نے پوچھا، آج آپ کی دکان کھلی ہے؟ تو شیتل نے اپنے مخصوص کڑک لہجے میں جواب دیا۔ ہاں جی، کھلی ہے اور یہ تو میرے مرنے پر ہی بند ہو گی۔ جب تک سانس چل رہی ہے دکان بھی چلے گی۔ اگر ضروری کام ہے تو تھوڑی دیر تک آ جاؤ۔ شیتل کور کی عادت ہے کہ کام کے ساتھ باتیں بھی کرتیں رہتی ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بس کام بتائیں اور واپس آ جائیں۔ ان کا ہر کسٹمر اس بات کو سمجھتا ہے۔
دکان کی مالک 72 سالہ شیتل کور نے میرے وہاں پہنچنے پر مسکرا کر مجھے ویلکم کہا۔ آج بڑی دیر بعد آئی ہے؟ سب بڑھیا ہے نا؟ وہ بڑی مستعدی سے سلائی مشین پر اپنا کام کر رہی تھیں۔ خیر، تو بیٹھ اور کام بتا۔ میں نے کام بتایا تو انہوں نے لکھا نہیں، بس یاد رکھتی ہیں۔ پھر کہنے لگیں، لوگ بدل رہے ہیں کچھ عراقی لڑکیاں آئیں تھیں، ان کا کافی کام تھا۔ جب واپس لینے آئیں تو چار سو ڈالر کا بل تھا، انہوں نے کپڑے چیک کیے اور مجھے دو سو دے کر کہنے لگیں کہ یہ لیں ہم باقی ساتھ ہی ATM سے نکلوا کر آتے ہیں۔
میں نے خیال ہی نہیں کیا کہ وہ اپنے کپڑوں کا تھیلا بھی ساتھ ہی لے گئیں اور آج تک واپس نہیں آئیں۔ میں نے اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ اب تو ہی میری محنت کے پیسے واپس دلائے گا۔ ان کے اللہ تعالیٰ کہنے پر میں چونک گئی۔ وہ ہنسنے لگیں، تم نے مائینڈ کیا۔ اچھا سوری۔ اللہ تیرا ہے، تو ہی رکھ۔ بات یہ ہے کہ میں بھگوان سے ہی مانگتی ہوں پر جب وہ کبھی دیر لگائے، تو میں تیرے اللہ سے بھی مانگ لیتی ہوں۔ دونوں کو عرضی ڈال دیتی ہوں جو بھی پہلے سن لے۔
یہ سن کر میں مطمئن ہو گئی۔ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا کہتا ہے کہ آج کل کسی کو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں، میں ان کو ڈھونڈ کر پیسے واپس نکلوا لیتا ہوں۔ میں نے اسے منع کر دیا۔ میری قسمت میں اگر وہ پیسے ہوئے تو کسی اور ذریعے سے آ جائیں گے۔ میں نے پوچھا، آج کل دو بجے دکان کھول رہی ہیں؟ کہنے لگیں ہاں پہلے خاوند اور بیٹے کے لئے کھانا پکا کر گھر صاف کر کے پھر آتی ہوں۔ بیٹی الگ رہتی ہے، اپنی جاب کرتی ہے۔ اس نے اپنے اپارٹمنٹ کی ایک چابی مجھے دے رکھی ہے۔
کسی دن وہاں چلی جاتی ہوں اس کا سارا اپارٹمنٹ صاف کر کے آ جاتی ہوں۔ پھر شام کو اس کا روتے ہوئے فون آتا ہے کہ میں اسے چابی واپس کر دوں۔ لیکن میں کہتی ہوں کہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ تم بتاؤ میں ٹھیک ہوں نا؟ میں نے کہا شیتل کور جی، ماں کے پیار کا بھی بھلا کوئی کنارہ ہوتا ہے؟ ماں کا پیار تو اس سمندر کی مانند ہے جس کی گہرائی کو کوئی نہیں ناپ سکتا۔ آنکھیں گیلی ہونے کے ڈر سے میں نے دوسری طرف رکھے کچھ کپڑے دیکھنے شروع کر دیے۔ ہنستے ہوئی بولیں بس میں سمجھ گئی، تیرا کیا مطلب ہے۔
کہنے لگیں ہمارے انڈیا میں میرے عزیز، رشتہ دار کہتے ہیں کہ شیتل تو پاگل ہے جو اس عمر میں دکان بھی چلا رہی ہے اور بچوں کے گھر بھی صاف کرتی ہے۔ تجھے پتہ ہے میری ایک بہن انگلینڈ میں ہے۔ جب انڈیا میں تھے تو وہاں میری شادی اس کے سسرال سے اونچے گھرانے میں ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے اس نے مجھے فون پر کہا۔ دیکھ شیتل، تیری شادی بھلے ہی سرداروں میں ہوئی تھی، پر دیکھ ساری عمر تو نے اندر اور باہر کتنی محنت کی۔ سرداروں کی بہو نے درزن کا کام کیا، اور میں تو پلنگ پر بیٹھی رہی۔
میں ہنستی رہی کہ بہن تم نے سچ کہا پر میں بہت خوش ہوں، اور میں نے تیری بات کا برا بھی نہیں مانا۔ بس رات کو بڑے سکون سے سو جاتی ہوں۔ اب تو فیملی بھی کہتی ہے کہ بزنس بند کر دو، پر اب پیسہ بہت پیچھے رہ گیا ہے اور میرا شوق اور کسٹمرز کا پیار ہی سب کچھ ہے۔ تو آئی، تیرا کام کروں گی اور تجھ سے چار باتیں کر لیں۔ بس اب مجھے اس کی ضرورت ہے۔
میرے فیملی ڈاکٹر نے کہا کہ اپنی عمر اور صحت کی وجہ سے کام کم کر دو، پر میں نے کہا کہ کسٹمرز کا کام کرتے ہوئے میں اپنی ساری درد اور بیماریاں بھول جاتی ہوں۔ میرا کام ہی مجھے حوصلہ اور توانائی دیتا ہے۔ ابھی کاؤنٹر پر رکھی ایکسرے رپورٹس کا معمہ باقی تھا۔ شیتل کہنے لگیں کہ ایک ہفتہ پہلے میرا ایکسڈنٹ ہو گیا۔ غلطی دوسرے کی تھی لیکن مجھے کافی چوٹیں آئیں، پر اس بار میں اندر سے کچھ ہل گئی۔
اس حادثہ نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ چند دنوں کے بعد میں نے اپنے خاوند اور دونوں بچوں کو اکٹھا کیا۔ اور کہا کہ میں نے اپنی آنکھیں اور جسم کے وہ تمام اعضا جو کسی کے کام آ سکتے ہیں، ان کو donate کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر انسانی جسم جل کر راکھ بننے کے بجائے کسی کے کام آ جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ گھر والوں نے میری اس خواہش کا احترام کیا اور میں نے ہسپتال والوں کو اپنی وصیت سونپ دی۔
آج شیتل کور سے کچھ دیر ملنے کے بعد گھر جاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ کچھ لوگ زندگی کو غیر ضروری حساب کتاب میں نہیں الجھاتے۔ کچھ اپنے اس عارضی دنیا سے جانے کے بعد بھی دوسروں کے کام آنے کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔ شیتل جانے کے بعد بھی اپنی آنکھوں کی روشنی سے کسی کی اندھیری دنیا کو منور کرنا چاہتی ہے۔ حساب پیسوں کا ہو، کام کا، یا پیار اور محبتوں کا، کچھ لوگ صرف اپنی طرف کے حصے سے مطلب رکھتے ہیں۔
لوگ چاہے انہیں بیوقوف کہیں، وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں مست اور خوش رہتے ہیں۔ کام چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اسے تن، من اور پوری ایمانداری سے کرنے والے لوگ، اپنوں یا غیروں کی کسی کڑوی بات کو ہنس کر ٹال دینے والے لوگ، دل میں انسانیت کا درد رکھنے والے اور آخری سانس تک اپنا حوصلہ اور ہمت بلند رکھنے والے لوگ ہمارے آس پاس ہی تو ہوتے ہیں۔ اور شیتل کور بھی انہیں میں سے ایک ہے۔