Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Judgmental

Judgmental

ججمینٹل

ہم شاید کوئی کام اتنی جلدی نہیں کرتے، جتننی جلدی ہم کسی کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ یعنی ہم اپنی عدالت کے جج بھی خود ہی ہیں۔ ملزم اور موقع محل بدلتے رہتے ہیں۔

شادی کی تقریب ہے۔ کرونا کی وجہ سے مہمان کم ہیں۔ کھانے کے لئے مہمان خواتین کی لائن کھانا لینا شروع کر چکی ہے۔ ایک خاتون نے کھانا لیا، تو پچھلی لائن میں سے فوراََ دبی سی آواز آئی، بس اتنا سا کھانا؟ معدہ کی کوئی بیماری ہوگی۔ ویسے دیکھنے سے بھی پتہ چل رہا ہے۔ سہیلی کی طرف سے فوری تائید نے حوصلہ کچھ اور بڑھا دیا۔ اب تقریباً دس خواتین اور بچے کھانا لے چکے ہیں۔

اب ایک قدرے صحت مند خاتون اپنی پلیٹ میں کھانا لیکر آگے بڑھیں، تو کچھ اس قسم کی رائے سننے میں آئی، اتنا کھانا روز گھر پہ کھائیں، تو کافی سمارٹ ہو جائیں۔ اس تبصرے میں کچھ دبی دبی ہنسی کی آمیزش بھی تھی۔ اگر کسی نے مناسب یا دل کھول کر کھانا لیا تھا تو وہ بھی ان کی طرف سے کسی نہ کسی جملے سے مستفید ضرور ہوا تھا۔ چلئے جی اب دولہا، دلہن آ چُکے ہیں۔ سب نے ان کی آمد پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور ان کی آئیندہ ازدواجی زندگی کے لئے دعائیں کیں۔

لیکن کچھ افراد تو ایسے بہت روکھا پھیکا محسوس کر رہے تھے کہ اب اگر ہم نے اپنی ماہرانہ رائے نہ دی؟ تو اس کے بغیر شادی کی تقریب ہی ادھوری ہے۔ آپ شاید کبھی کبھار ملنے والوں میں سے ہیں لیکن ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت کچھ بیان کر سکتے ہیں۔ کم از کم فوری طور پر اپنی رائے بہت اعتماد اور مستند طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ اور صرف خوشی کے موقع پر ہی نہیں، رنج و غم اور حتیٰ کہ سوگواری کے ماحول میں بھی ججمینٹل افراد اپنے فرائض بطریق احسن سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔

بھئی آخرکار ڈیوٹی کا بھلا موقع محل سے کیا واسطہ؟ مجال ہے جو اس میں کبھی یہ چوک جائیں۔ کوئی خوش اور اپنے حال میں مست ہے تو کیوں ہے؟ لو بھئی اس کی تو عادت ہے کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انکا ڈھنڈورا پیٹنے کی۔ کوئی باتونی، تو کوئی شاید خشک یا سڑیل ہے۔ کوئی کسی مصیبت یا حادثہ سے سنبھل گیا تو بے حس و بے پروا ٹھہرا۔ کوئی کسی صدمہ سے نہ نکل سکا تو نادان اور کم فہم کا لیبل چپکا دیا گیا۔

زمانہ طالب علمی میں کسی بچے کے قدم کہیں لڑکھڑا گئے، تو اس پر مستقبل میں ناکامی کا فتویٰ صادر ہو گیا۔ محض کسی کے لباس یا پہننے اوڑھنے کے سٹائل سے جدت یا قدامت پسند ہونے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ کہیں میاں بیوی میں کوئی بدگمانی ہو گئی تو مصالحتی کردار ادا کرنے کے بجائے گھر ٹوٹنے کی پیش گوئیاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ دوسروں کے معاملے میں ہم خود کو بہترین جج تصور کرتے ہیں، اور جب چاہیں اپنی عدالت میں فیصلہ صادر کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔

کسی کی ظاہری شباہت، خدوخال، ذاتی زندگی، کامیابی، ناکامی کے بارے میں جھٹ سے فتویٰ لگا دینا خود پسندی کے زمرے میں آتا ہے، اور ذہنی پسماندگی کا آئینہ دار ہے۔ قریبی دوستوں کی کمی یا کوتاہی پر بھی نکتہ چینی اس طرح کریں کہ اس کی انا مجروح نہ ہو۔ بے عیب ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے۔ کسی کی جسمانی یا ذہنی کمزوری یا کسی قسم کی کمی کے بارے میں طنزیہ بات یا جملہ کہنا خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی نا پسندیدہ ہے۔

اے آسماں تیرے خدا کا نہیں ہے خوف

ڈرتے ہیں اے زمیں، تیرے آدمی سے ہم

ہم جب کسی کو جج کرتے ہیں تو اپنے آپ کو پہچان رہے ہوتے ہیں۔ کسی کے بارے میں ہم کبھی بھی مکمل اور سو فیصد سچ نہیں جان سکتے۔ ہم سارے حالات واقعات سے باخبر نہیں۔ ہمیں اتنا ہی جاننا چاہیے، جتنا دوسرا ہمیں بتانا چاہتا ہے۔ ہم صبر بھی کر سکتے ہیں، دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کے لئے تھوڑا سا وقت بھی تو دے سکتے ہیں۔ دوسرے کی اچھی باتوں کو اہمیت دیں، اس ٹوہ میں مت رہیے کہ ہمیں کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے۔

ہم بحیثیت انسان سارے سچ کو جاننے کی استطاعت اور اہلیت نہیں رکھتے۔ اس لئے ججمنٹ کا اصل حقدار بھی خدا تعالیٰ ہی ہے۔ بے شک وہ ہمارے تمام رازوں اور مکمل سچ سے کلی طور پر واقف ہے۔ دنیا میں لوگوں کو جانچنا، پرکھنا اور ان کے بارے میں رائے قائم کرنا انسانی فطرت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ خود شناسی اور خود آگاہی بھی ضروری ہے۔

اگر آپ بلا جواز اور ایک پل میں دوسروں کے بارے میں رائے قائم کر رہے ہیں تو ان کے ساتھ نا انصافی ہے ہی، آپ اپنے ساتھ بھی غلط کر رہے ہیں۔ کیوں کہ آپ نے اپنے دل و دماغ کی ساری کھڑکیاں، روشندان اور دروازے نہیں کھولے۔ اور اس میں تازہ ہوا کو آنے سے روک دیا ہے۔ کسی کو سمجھنے کے لئے وقت، محنت، احساس اور کشادہ دل و دماغ چاہیے، لیکن ججمینٹل ہونے کے لئے ان میں سے کچھ بھی درکار نہیں۔

مشہور سائیکاٹرسٹ Carl jung کہتے ہیں۔

.Thinking is difficult, thats why most people judge

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf