Ideal
آئیڈیل
انسان عمرکے ہر حصے میں خواب دیکھتا ہے۔ کچی عمر کے خواب بھی کچے ہوتے ہیں۔ دھنک کے سات رنگوں سے سجے سنورے، پنکھ لگا کر اڑتی خواہشیں، من جیسے چاہے کہ کوئی اڑتا لمحہ امر ہو جائے۔ اور بس اس پل کے گرد زندگی رقصاں رہے۔ بہت سوں نے کتابوں میں پھول بھی رکھے ہوں گے۔ پھر دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ جیون اپنی گرہیں کھولتا ہے۔ کبھی کوئی کہانی یا افسانہ پڑھتے ہوئے، یا کوئی ڈرامہ اور فلم دیکھتے ہوئے کوئی کردار دل کو یوں چھو لیتا ہے کہ ہم اس کردار کی قید سے آزاد ہی نہیں ہو پاتے۔ اس کی شباہت، وضع قطع، چال ڈھال، لب و لہجہ کب دل میں براجمان ہوتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا اور یوں وہ کردار ہمیں اپنے سحرمیں جکڑ لیتا ہے۔
کسی انسان کی شخصیت اور اس کے اوصاف سے متاثر ہو کر اسے آئیڈیل مان لینا بھی ایک نارمل عمل ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے خاندانی بنیادوں پر وضع داری اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ رشتوں کو جوڑ دیا جاتا تھا۔ کزن میرج ہو یا کسی دوسرے خاندان میں رشتہ طے کیا جائے۔ والدین کا فیصلہ ہی حرف آخر ٹھہرتا تھا۔ بلا شبہ والدین اپنے بچوں کے مزاج اور عادات و اطوار سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ سو شادی ہوئی اور پھر تاعمر ایک دوسرے میں اپنا آئیڈیل ڈھونڈتے رہیں۔ کبھی دل کی کسک نے سر اٹھایا بھی تو رشتوں کے دباؤ اور معاشرتی خوف سے لب سلے رہے۔
پھر وقت آگے بڑھا، تو کہیں اظہار رائے کی آزادی بھی ملنے لگی۔ بچوں کی پسند کو اہمیت دی جانے لگی یعنی من چاہے جیون ساتھی کے انتخاب میں والدین کی رکاوٹ بھی ختم ہونے لگی۔ جسے چاہا، اسے پایا۔ لیکن یہ کیا، کبھی یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ وقت کے ساتھ آئیڈیل کی کشش ماند پڑنے لگی۔ وہ جس کو دل جاں سے چاہا، وہی بے معنی کیسے ہوگیا؟ دل سے کب اور کیسے اترا؟ وہ جس کے بغیر زندگی ہی بے رنگ لگتی تھی، اس کی موجودگی بے وقعت کیوں ٹھہری؟
یعنی عشق عملی زندگی کا امتحان پاس نہ کر سکا۔ لمبی شناسائی یا دوستی شادی کی کسوٹی پر کھری نہ اتر سکی۔ ایسا مغرب میں عام دیکھنے کو ملتا ہے کہ شادی سے زیادہ دوستی پائیدار رہتی ہے۔۔ کبھی مالی مسائل سے بھی خوابوں کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے، یعنی آئیڈیل توقعات کا بوجھ نہ اٹھا سکا؟ یا پھر خواہش تکمیل کو پہنچ کر اپنی کشش کھو بیھٹی؟
کبھی سالوں اکٹھے رہنے والے ایک ہی چھت کے تلے دو اجنبیوں کی طرح زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنا آئیڈیل نہ ملنے کو قسمت کا لکھا مان کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ پاؤں میں بچوں کی بیڑیاں اور معاشرتی خوف کوئی دوسرا قدم اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر دل حکمرانی پر اتر آئے، تو آئیڈیل پانے کی خواہش میں دل ہی فاتح قرار پاتا ہے۔ قسمت یاوری کرے تو زندگی کی ڈھلتی ہوئی شام میں بھی دل اپنی من مانی کر گزرتا ہے کہ چلئیے دیر سے ہی سہی، ملا تو سہی۔ لوگوں کا تو کام ہی ہے، چار دن باتیں کرکے خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔
تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے۔ زندگی کے سفر میں کچھ اونچ نیچ، کڑوا کسیلا ذائقہ، کچھ گلے شکوے، کچھ کھٹی میٹھی باتیں تو شامل رہتی ہی ہیں۔ شادی کی سالگرہ کی تاریخ یا تحفہ بھولاجا سکتا ہے۔ لیکن ایک دوسرے کا خیال رکھنا، عزت دینا، معمولی سی غلطی کو نظر انداز کر دینا ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
زندگی کے سفر میں آئیڈیل کا سنگ ملے یا نہ ملے، یہ آسانی سے تبھی کٹے گا جب ایک دوسرے کو سمجھا اور سنا جائے۔ یک طرفہ محبت ہو یا عزت، پروا ہو یا خیال خوشیوں کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ یعنی کبھی تم کہو اور میں سنوں، کبھی میں بولوں اور تم خاموش رہو، والا سلسلہ ہو۔ ہمسفر آپ کا آئیڈ ل ہو یا آپ کو قسمت سے ملا ہو، سفر کیسے کٹے گا۔ یہ تو آپ کو خود ہی طے کرنا ہے!