Hum Kyun Badalte Hain?
ہم کیوں بدلتے ہیں؟
خاں صاحب کودیکھا، حج کے بعد کتنے بدل گئے ہیں؟ پہلے تو ساز اور سنگیت سے ہی فرصت نہ تھی۔ اب اوقات نماز کے علاوہ بھی مسجد میں پائے جاتے ہیں۔ کل مسز چوہدری سے ملاقات ہوئی تھی، بیماری نے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ پہلے تو کافی attitude تھا؟ گفتگو کے موضوعات بھی بدل گئے، دین اور آخرت کی باتیں چلتی رہیں۔
مجھے مال میں اپنی پرانی دوست ملی تھی، میں نے تو پہچانا ہی نہیں۔ خاوند کو بڑا عہدہ کیا ملا، چال ڈھال، بات چیت اور سٹائل ہی بدل گیا، ہاں بھئی پیسہ بولتا ہے۔ میرا بیٹا شادی کے بعد یکسر بدل گیا ہے، لگتا ہے بس بہو نے پوری طرح قابو کر لیا ہے۔ اب میری تو سنتا ہی نہیں۔ کبھی کسی کو اپنا لنگوٹیا یار سرراہ مل جائے، اور وہ اپنے بازو کھول دے، تو دوسرا صرف دور سے ہاتھ ہلا کر رستہ بدل لیتا ہے۔ سائرہ کی سائیکا ٹرسٹ سے اپا ئنٹمنٹ تھی۔
آج اس کمرے میں وہ سب کہنے کا وقت تھا، جسے اس نے نہ جانے کب سے اپنے اندر جذب کر رکھا تھا، اور ہزار کوشش کے باوجود کسی بہت اپنے سے بھی نہ کہہ پائی تھی۔ ایک ہی شخص کے ساتھ بیس پچیس سال گزارنے کے بعد وہ بلکل اجنبی کیوں لگنے لگتا ہے؟ ضروری نہیں کہ ہر وقت ساتھ رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو سو فیصد سمجھتے ہوں۔ لوگ کب، کیوں اور کیسے بدل جاتے ہیں؟ کیا آپ نے محسوس کیا کہ آپ بھی بدل رہے ہیں؟
تبدیلی ارتقائی عمل کا حصہ ہے، زندگی کے تجربات، نشیب و فراز اس تبدیلی کا کارن بنتے ہیں۔ خراماں خراماں چلتی زندگی میں کوئی ایک ایسا بھو نچال آتا ہے کہ زندگی 180 درجے پر فلپ ہو جاتی ہے۔ یہ بھو نچال کوئی شخص بھی ہو سکتا ہے، کوئی واقعہ، کوئی فلم، کوئی حادثہ یا بیماری، کوئی دھوکہ یا پھر اپنے کسی بہت پیا رے کے دنیا سے چلےجانے کا دکھ، جو آپ کو یقینی طور پر بدل سکتا ہے، اور بدلتا بھی ہے۔
لیکن پھر سے خود کو جوڑ کر حالا ت سے لڑنا ہی زندگی ہے۔ لیکن ہمارا زندگی کے بارے میں نظریہ یا انداز فکر تبدیل ہو جاتا ہے۔ کبھی لوگ کسی ڈر یا خوف کے تحت بدل جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی کی کامیا بی سے متاثر ہو کر اپنی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی لاتے ہیں۔ کبھی انسان کا دل پرانے رشتوں سے اکتا جاتا ہے، دل میں نئے تعلقات استوار کرنے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ جو بدل جائے، اسے روکا نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہ اپنا فیصلہ کر چکا ہے۔
انسان اپنے ارتقا کے سفر میں خود اپنی شخصیت کے کئی پہلوؤں سے روبرو ہوتا ہے۔ وقت، تعلیم و تربیت، دوستیاں، ماحول، حالات، رشتے، خوا ہشیں، مجبوریاں، خود داریاں اور انا سب اسے بدلتے ہیں۔ ہم کسی سے دس یا بیس سال کے بعد ملیں تو وہ نہ صرف ظاہری طور پر بدلے گا جسے ہم ایک سیکنڈ میں محسوس کر لیں گے۔ بلکہ یقینی طور پر اس کی سوچ، انداز فکر اور رویوں میں بھی بدلاؤ آچکا ہوگا۔ جس کا ادراک ہمیں اس سے وقتا فوقتا ملنے پر ضرور ہوگا
تنگ و تاریک اور بدبو دار گلیوں کے سامنے بڑی بڑی گاڑیاں، اور ان میں سے نکل کر گھروں میں جاتے لوگ وہ ہیں، جو کبھی یہیں کے باسی تھے۔ جنہوں نے غربت و افلاس کی بھیانک جنگ لڑ کر اپنے خوابوں کو سچ کیا، کہ خدا تعالی کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتے۔ اگر وہ واپس آکر پرانے دوستوں سے جپھی ڈال کر ملتے، یا ان کے لئے کچھ کرتے ہیں۔ تو یہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ لباس، سٹیٹس یا عہدہ بدل جانے سے ہر انسان کا کردار نہیں بدلتا۔
ان کے اندر پرانی دوستی کی مہک اور انسانیت زندہ رہتی ہے۔ جو آپ کی مشکلات دیکھ کر بدل جائے وہ آپ کا سچا دوست نہیں ہے۔ اپنے گرد ہجوم کے بجائے مخلص لوگوں کا انتخاب کریں۔ بدلنا انسان کی فطرت ہے، اپنی ذات میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ اپنے کردار کو مضبوط اور مستحکم رکھیں، آپکی شخصیت اور کردار کا ریموٹ کنٹرول صرف آپکے اپنے ہاتھ میں ہے۔