Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Harkat Mein Barkat Hai

Harkat Mein Barkat Hai

حرکت میں برکت ہے

سوئس خواتین کو ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر میں زیورک کے کھیتوں میں ٹریکٹر چلاتے اور بڑی جانفشانی سے کھیتی باڑی کرتے دیکھا پھر چھوٹے بچوں کو حتی المقدور بزرگوں کا ہاتھ بٹاتے پایا۔ طفلانہ عمر میں بلا خوف وخطر پہاڑیوں پر چڑھتے، جھیلوں میں تیرتے بچے بہت پر اعتماد نظر آرہے تھے۔ یورپ میں خوش باش بزرگ، ان کا ایکٹو لائف سٹائل، واکنگ، جاگنگ، سائیکلنگ وغیرہ، دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔ کہ وہ ایک اچھی فعال زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کی عمر خواہ سرکار متعین کرتی ہے، لیکن آپ کے اندر کی توانائی یا صلاحیتوں کو خود آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ بس بہت دنیا داری کرلی، اب بہو گھر آ گئی، میں تو اللہ کی عبادت کروں گی۔ بیٹا! آج گڑیا کو میں سکول کے بس سٹاپ تک چھوڑ آتا ہوں، اسی بہانے سے باہر واک بھی کر آؤں گا۔ جب سے ریٹائر ہوا ہوں، گھرمیں قید ہی ہوگیا ہوں۔ دادا ابو نے خوش ہو کر بیٹے سے پوچھا؟

نہیں نہیں، میں دفتر جاتا ہوا کچھ دیر سٹاپ پر رک جاؤں گا۔ آپ بس آرام کر یں۔ لیکن بیٹا، بس کہا نا، آپ آرام کریں۔ اس کے بعد ریٹائرڈ دادا جی کو پہاڑ جیسا دن کاٹنا دفتری ذلالتوں سے بھی مشکل نظر آرہا تھا۔ یہ سب ہمارے ہی گھروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنے بڑوں کو آرام دینے کی خواہش میں انہیں بے کار مت بنائیے۔ دوران ملازمت، نو سے پانچ کی چکی پییستے ہوئے ریٹائر منٹ ایک حسیں خواب کی طرح لگتی ہے۔ لیکن بغیر پلاننگ کے ریٹائرمنٹ کب بھیانک حقیقت میں بدل جاتی ہے، خود کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ وہ ننھے پودے جن کی آبیاری آپ نے اپنا لہو پسینہ بہا کر کی تھی، کب اور کیسے آپ ہی کی جڑیں کاٹنے کے درپے ہو گئے؟

جن کے ساتھ آپ نے فارغ ہو کر سیر و تفریح کے پلان بنائے تھے، آپ ان کے لئے بوجھ کب بنے؟ اپنے ہاتھوں سے بنائے گھر میں آپ فالتو فرنیچر کی طرح کیوں پڑے ہیں؟ جو کام آپ ابھی بھی بخوبی کر سکتے ہیں اس سے آپ کو کیوں منع کیا جاتا ہے؟ کیا یہ ان کا پیار ہے؟ کیا آپ تمام دن بغیر کسی مقصد کے گزار کر اچھا محسوس کرتے ہیں؟ چلئے جی اس پر شکر منائیں کہ اپنے گھر میں تو ہیں، ورنہ تو اولڈ ہوم کی آپشن بھی موجود ہے۔ جب ہمارے اپنے پرایا کر دیتے ہیں اور درد مند غیر اپنا لیتے ہیں۔

ویسے تو کئی دفعہ بزرگ بھرے پرے گھروں میں بھی تنہائی کا زہر پیتے نظر آتے ہیں۔ ان کی موجودگی گھر والوں کے لئے بے معنی نظر آتی ہے۔ جہاں بزرگوں کی دل سے قدر اور خیال رکھا جاتا ہے، وہاں اولاد کی اچھی تربیت اور مالی خود مختاری کا سو فیصد عمل دخل موجود ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے بوڑھے اتنے لاچار، تلخ اور منفی رویوں کے حامل کیوں ہو جاتے ہیں؟

ہم بحثیت اولاد احسان فراموش اور کٹھوردل کیوں بن جاتے ہیں؟ غریب تو افلاس کی مار کھاتا ہی ہے، لیکن متمول افراد بھی کہیں تنہائی، نظر اندازی کے غم اور وقت کی فروانی کے ہاتھوں لاچار نظر آتے ہیں۔ کیا بڑھاپا تنہا رہنے اور موت کا انتظار کرنا ہے؟ ہمارے ہاں دوسرے ممالک کی طرح بزرگوں کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اور ان کے علم اور تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ شاید ہمارے بوڑھے خود کو ہی اہمیت نہیں دیتے؟

انسانی جسم کی مشینری اگر زیادہ عرصہ تک بیکار رہے، ہر چھوٹے اور معمولی کام کے لئے کسی اور پر انحصار کیا جائے، تو یہ زنگ آلود ہو جاتی ہے۔ ہماری خوراک، متحرک طرز زندگی، سونے جاگنے کے اوقات اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے کھانے جو تنوع اور ذائقے سے بھر پور ہیں، کبھی ان میں میں اعتدال برتنا ممکن نہیں رہتا۔ جس سے کئی طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ بزرگ کوئی بھی مشغلہ ضرور اپنائیں جیسے کہ صبح یا شام واک، کتابیں پڑھنا، دوستوں سے ملاقات، وغیرہ۔ کوئی پارٹ ٹائم جاب یا نیا ہنر سیکھنا، یعنی جسم کے ساتھ دماغ کا ایکٹو رہنا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ بڑھاپے میں فعال ہیں، وہ صرف اپنی مثبت سوچ، ہمت اور حوصلے کی وجہ سے ہیں، ورنہ بیماریاں انہیں بھی ہیں۔ جب آپ خود کو فالتو اور بوجھ سمجھیں گے تو اندرونی اور بیرونی طور پر ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔

اولاد سے عدم توجہی کے باعث میں نے کافی بزرگوں کو تلخ اور رنجیدہ دیکھا ہے جو کہ ایک قدرتی عمل ہے۔ لیکن وہ بزرگ جو ذہنی اور جسمانی طور پر ایکٹو ہیں، ان کے مزاج میں چڑ چڑاپن بہت کم ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے نبی محترم، تمام پیغمبر اور صحابہ کرام محنت و مشقت کے عادی تھے۔ ہمارے دین اسلام میں ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں بتائی گئی۔ کچھ لوگ بڑھاپے میں مذہب اور عبادات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جو قابل تعریف ہے۔

ریٹائرڈ انسان کے پاس علم اور تجربے کے ساتھ وہ وقت بھی ہوتا ہے، جس میں وہ اس علم کو معاشرے کو واپس لوٹا سکے۔ سر راہ کوئی نیکی، رفاحی کام، اپنے گھر یا کمیونٹی کے بچوں کو سبق آموز کہانیاں یا واقعات بتانا وغیرہ۔ کچھ بزرگ بچوں سے گھلتے ملتے نہیں کہ بچوں پر ان کا خوف ختم ہو جائے گا۔ بچے سچ میں ان سے ڈرنے یا گھبرانے لگتے ہیں۔ لیکن بچے پیا ر کی زبان میں جلدی سیکھتے ہیں۔ جب اتنا سب کچھ کرنے کے لئے موجود ہے تو پھر دنیا کو یہ بھی بتا دیتے ہیں، کہ ہم ناکارہ سپاہی نہیں ہیں، ایک نئے محاذ پر لڑنے کے لئے بھی تیار ہیں۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf