Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Ghar Dari Aur Degree

Ghar Dari Aur Degree

گھر داری اور ڈگری

عائزہ آجکل اپنے بیٹے کے لئے رشتہ ڈھونڈ رہیں تھیں۔ اسی سلسلے میں انہوں نے آس پڑوس میں بھی کہہ رکھا تھا اور اپنے ذہن میں ہونے والی بہو کے بارے میں ایک خاکہ بھی کھینچ رکھا تھا۔ آج جب پڑوس سے انیلہ بیگم ملنے آئیں، تو انہوں نے بتایا، کہ ان کے جاننے والوں میں ایک نہایت معقول رشتہ موجود ہے۔ لڑکی اعلی تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہے۔ وہ ایک بنک میں اچھے عہدے پر فائز ہے۔

عائزہ نے سنتے ہی کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کا بیٹا اپنی بیوی کی ڈگری اور نوکری کے دباؤ میں آکر اپنی زندگی گزارے اور بہو سسرال پر بھی اپنے کماؤ ہونے کا رعب جمائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بہو کم عمر، کم پڑھی لکھی اور گھر گھر ہستی کی خوبیاں رکھتی ہو اور آتے ہی ان کے ماحول میں رچ بس جائے۔ سسرال کو اپنا ہی گھر سمجھ کر سب سے حسن سلوک سے رہے۔

انیلہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا، وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن آپ نے ڈگری اور ملازمت کے رعب والی بات خوب کہی۔ میں اس سے ہرگز متفق نہیں ہوں۔ کیوں کہ برسوں کی محلے داری ہونے کی وجہ سے سب جانتے تھے، کہ عائزہ نے اعلی تعلیم یا ملازمت نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ اپنے شوہر اور سسرال پر پر حکمرانی کی تھی۔ گھرکے چھوٹے بڑے معاملات سے لیکر خاندانی امور کے بڑے فیصلوں تک اپنی ہی منوائی تھی۔ سسرال والوں سے بھی بس رسمی سا تعلق رکھا تھا۔ اس میں ان کی دبنگ طبعیت اور کاٹ دار زبان کا نمایاں دخل تھا۔ یہ دونوں چیزیں کسی بھی شریف النفس انسان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر ہی دیتی ہیں۔ خاص طور پر اگر اسے اپنی زندگی سکون اور عزت سے بسر کرنی ہے۔

ہمارے ارد گرد ہی بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں اعلی تعلیم یافتہ بچیاں اپنی شادی، ملازمت اور گھر ہستی کو بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اس طرح کی مثالوں میں اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کا بھی بھر پور کردار موجود ہوتا ہے۔ کہیں کم عمر بچیاں نا سمجھی میں ہی مشکلات اور سسسرالی الجھنوں کا شکار نظر آتیں ہیں۔ معاملات بگڑتے وہاں ہیں جہاں بد قسمتی سے ان کو ناقدر لوگ مل جائیں۔

اگر جیون ساتھی ہی آپ کو سمجھ نہ پائے تو زندگی کانٹوں کا بستر بن جاتی ہے۔ اگر سسرال والے کھلے دل کا ثبوت نہ دیں تو گھر کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں لڑکیاں شادی کے بعد بھی اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتیں ہیں اور شوہر اور سسرال بھی اس میں معاونت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن کہیں آگے پڑھنے کی خواہش کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ہمیں کون سا آپ سے ملازمت کروانی ہے۔

ہمارے گھرانوں میں بیٹی جیسی رحمت پیدا ہونے پر اللہ تعالی سے اس کی اچھی قسمت کی دعا کی جاتی ہے۔ بیٹی بیاہ کر پرائی ہو جاتی ہے۔ نازو نعم اور لاڈ پیار سے پالی ہوئی بیٹیاں گھر سے رخصت کرنا دل گردے کا کام ہے۔ لیکن یہی دستور زمانہ ہے۔ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت والدین کا فرض اولین ہے۔

اگر بیٹیاں اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہوں تو وہ زمانے کے گرم سرد کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتی ہیں۔ بے شمار بچیاں شادی کے بعد گھر اور بچوں کی خاطر اپنے کیرئر کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔ لیکن علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو آپ کبھی بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پڑھی لکھی مائیں بچوں کے مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکتی ہیں۔ ہم اپنی بیٹیوں کو وہ شعور اور تعلیمی قابلیت ضرور دے سکتے ہیں جس سے وہ نا مساعد حالات یا پسماندہ سوچ سے لڑ سکیں۔ اچھے برے میں تمیز کر سکیں۔

بیٹی کو گھر کا حکمران بنانا ہے تومالکانہ حقوق حاصل کرنے کے بجائے دل جیتنے کا گر سکھائیے۔ اپنے فرائض کی تکمیل کے ساتھ اپنے حقوق کے لئے کھڑا ہونا بھی سکھائیے۔ گھر بسانے کے لئے میاں بیوی دونوں ہی کہیں نہ کہیں کسی طرح کی قربانی دے رہے ہوتے ہیں تبھی ایک گھر کی مضبوط بنیاد قائم ہوتی ہے۔ بیٹیوں کی اعلی تعلیم اور اچھی تربیت صرف ملازمت کی غرض سے نہیں، بلکہ ایک بہتر گھر اور بہتر معاشرے کی بنیاد کے لئے ناگزیر ہے۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra