Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Generation Gap

Generation Gap

جنریشن گیپ

جنریشن گیپ کی آسان الفاظ میں تعریف کی جائے تو یہ نئی اور پرانی پیڑھی کی سوچ کے مابین فرق کا نام ہےاس فرق کو روز مرہ کی زندگی، دفاتر، تعلیمی اداروں، گھروں اور ایک ہی خاندان کے افراد میں بھی دیکھا جا سکتا ہےاگر اس کے ارتقا پر نظر ڈالی جائے تو جنریشن گیپ کی اصطلاح کا استعمال 1960 سے ہوا یہ وہ وقت تھا جب نئی نسل نے اپنے والدین کی سوچ سے ہٹ کر دنیا کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ اور پھر دھیرے دھیرے وقت کےساتھ ساتھ وہ اپنی سوچوں کو نئے زاویے دیتی رہی۔ آج جب کہ ہم نت نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے ساتھ 2021 میں داخل ہو چکے ہیں تو کیا ہمیں شخصی اور اجتماعی طور پرجنریشن گیپ سےڈرنا چاہیے؟

اگر ہم اپنے گھروں کا جائزہ لیں تو ماں باپ اور بچوں کے درمیان اس فرق کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے جو اکثر اوقات والدین اور بچوں کے ذہنی تناؤ کا سبب بن جاتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں ایسی کئی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ اکثر بچے اپنے مستقبل کے profession کے چناؤ میں اپنے والدین سے الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ والدین کی راۓ کی بنیا د ان کے خیالا ت کی پختگی، ذاتی تجربات اورعملی زندگی کے اتار چڑھاؤ پرہوتی ہے۔ اس کے برعکس بچےاپنے passion کو اہمیت دیتےنظرآتے ہیں۔ اس کا حل تووالدین اور بچوں کے درمیان بات چیت ہی سے ممکن ہے۔ میری راۓ میں passion کے بغیر کسی بھی profession میں کامیابی اور ترقی ممکن نہیں۔ اگر آپ کا کام یا ملازمت آپ کے شوق سے مطا بقت رکھتا ہے تو یہ کسی نعمت سے کم نہہیں۔ اور آج کل تو نئ پود اپنے profession میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ انگلستان کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے چالیس سال کی عمر میں painting شروع کی۔ چرچل نے مشکل دور میں اپنے اس شوق یا مشغلے کو امید اور روشنی کا نام دیا۔ اسی لئے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی بھی بہت مثبت قدم ہے۔

شادی بیاہ کے معاملات میں بھی خاصی مختلف صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پرانی اقدار دم توڑتی نظر آ رہیں ہیں۔ ہمیں ان پر رنجیدہ ہونے سے پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ درست تھیں یا غلط؟ بلا شبہ وقت بدل رہا ہے ہمیں بھی اپنے خیالا ت میں وسعت پیدا کرنی ہوگی۔ نئ جنریشن سے اپنی بات منوانے سے پہلے ان کی بات کو کم ازکم سننا اور سمجھنا تو ہو گا۔

بحیثیت والدین ھمارا اپنے بچوں کو مختلف سمت میں سوچتے اور آگے بڑھتا دیکھ کر پریشان ہونا ایک فطری عمل ہے۔ آپ اور بچوں کا کسی بھی مسئلے پر مختلف رائے رکھنا بھی جائز ہے۔ آج سے کئی سال پہلے ایک خاتون سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کے شوہر کا انتقال اس وقت ہوا جب ان کے بچے اپنی تعلیم و تربیت کے حوالے سے نوعمر تھے۔ لیکن جب مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ بچے اپنی عملی زندگی میں بطریق احسن داخل ہو چکے تھے اور خاتون بہت مطمئن اور آسودہ تھیں میں نے ان سے سوال کیا کہ کینیڈا میں مقیم ہونے اور والد کے بغیر ان بچوں کی تعلیم و تربیت میں آپ کو بہت مشکلات کا سامنا ہوا ہوگا تو خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر کا یہ معمول تھا کہ اپنی ملازمت ختم کر کے گھر آنے کے بعد وہ اپنے تینوں بچوں کو کچھ وقت ضرور دیتے تھے اور ہم ان کی عمر کے مطابق انہیں دین اور دنیا داری کے بارے میں بتاتے تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مجھے کسی بھی امتحان سے نہیں گزرنا پڑا۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ کم وبیش بیس سال پرانا ہے اور اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہرگھر میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میری دانست میں اس واقعہ کا پیغام وہ رابطہ ہے جو نئ اور پرانی جنریشن کے درمیان قائم رہنا چاہیے۔ وہ بات چیت ہے جو ہوتی رہنی چا ہیے۔

ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہوں گی۔ ایک بزرگ نے دوران گفتگو ذکر کیا۔ وہ اکثر اپنے بیٹے کے کمرہ میں جاتے اور اسےکہتے کہ وہ ان کے لیے ای میل ٹائپ کر دے۔ ایک دن بیٹے نے ان سے کہا۔ آج آپ مجھ سے ای میل ٹائپ کرنا سیکھ ہی لیں تاکہ آپ مجھ پہ depend نہ کریں۔ لیکن انہوں نے مسکرا کے کہا۔ بیٹا اب میں سیکھ کر کیا کروں گا۔ اس کے بعد وہ کچھ یوں مخاطب ہوۓ۔ میں صرف اپنے بیٹے کے ساتھ کچھ وقت گزارنے اس کے پاس جاتا ہوں ورنہ میں خود بھی ای میل پڑھ سکتا ہوں اور ٹائپ کر سکتا ہوں۔

اپنے بچوں سے مس یا مسٹر پر فیکٹ کی توقع یا خواہش رکھنا سرے سے غلط ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور اپنی غلطیوں ہی سے سیکھتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو فطری طور پر خود سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کہ ہر لحا ظ سے قابل تحسین ہے۔ بچوں پر غیر حقیقی توقعات کا بوجھ مت ڈالیں۔ خدا نہ کرے کہ یہ بوجھ اان کے خواب، passion یا ان کی self کو کچل دے۔

آج کل ہمارےگھروں میں عام طور پر یہ شکایت بہت سنی جاتی ہے کہ بچے اپنی ہی دنیا میں گم رہتے ہیں اور والدین کے ساتھ جانا یا وقت بتانا پسند نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں والدین کو ایک متوازن رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جس میں بچوں کے شوق اور ان کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ کوالٹی ٹائم گذارہ جاۓ۔ بچوں کو صحیح اور غلط کی تفریق بتائیں ان کو یہ احساس دلائیں کہ ان کی رائے بھی آپ کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے لیکن بحثیت والدین ان کی رہنمائی آپ کا فرض ہے۔ بچوں کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر ان سے دوستی کا رو یہ اپنائیں۔ بچوں کو بھی گفتگو میں شائستگی اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ آج اگر ہمیں پحثیت والدین جنریشن گیپ کا سامنا ہے تو ہمارے بچے بھی کہیں نہ کہیں کسی محاذ پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان سے بات کرتے رہیں اوران کی بات سنتے رہیں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti