Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Desi Parents

Desi Parents

دیسی پیرنٹس

آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ بچے، جواں، بو ڑھے سبھی اس کی گرفت میں ہیں۔ ٹک ٹاک سے انجوائے کرنے والوں کی ایک معقول تعداد ہے۔ ٹین ایجرز تو خاص طور پر اس میں مصروف رہتے ہیں۔ دیسی پیرنٹس کے حوالے سے بچے کئی ٹک ٹا کس ہمیں بھی دکھاتے ہیں۔ جن کو دیکھ کر واقعی ہی ہنسی روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اور ہمارے گھروں میں ایسا کچھ سچ میں ہوتا بھی ہے، لیکن بے شک تفریح کے لئے اس میں کچھ مبالغہ اوربھی شامل کر دیا جاتا ہے۔

مثلاً اگر ہمارے گھر کا بچہ دوستوں کے گھر sleep over کا پوچھ لے، یا ان کے ساتھ کچھ دن دوسرے شہرٹرپ پر جانے کی اجازت مانگے؟ تو ہمارا جواب کیا ہوگا؟ اگرچہ ہر گھر کا ماحول اور parenting کے اصول الگ ہوتے ہیں۔ آج کل کچھ لوگ اس معاملے میں بہت وسیع اور آزاد سوچ رکھتے ہیں۔ کچھ آج بھی certain limitations apply کے نظریہ پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹک ٹاکرز بچے یا افراد ویڈیوز تو بہت اچھی بناتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک میں دیسی parenting کے مسائل اور اس کی حساسیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ویسے توparenting ہرجگہ اور ہر دور میں اپنے چیلنجز رکھتی ہے۔

مغربی ممالک میں سولہ سال کا بچہ اپنی مرضی سے کوئی odd job کر سکتا ہے۔ جس میں قطعا کوئی برائی نہیں۔ دراصل یہ آپ کو آنے والی عملی زندگی کے لئے تیار ہونے میں مدد کرتی ہیں۔ کینڈا میں پہلی دفعہ جب ایک نوعمر بچے کو اپنے باپ کے ساتھ گروسری سٹور میں اپنا بل ادا کرتے دیکھا تو کچھ حیرت ہوئی۔ بچے کے ہاتھ میں ایک چاکلیٹ بار تھی۔ باپ نے گروسری چیک آؤٹ کے لئے رکھی، تو اس بچے نے divider رکھ کر اپنی چاکلیٹ بار رکھ دی۔ اور اس نے اپنا بل خود ادا کیا، اس ایک چاکلیٹ کو وہ باپ بھی pay کر سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک طریقہ سے بچے کی ٹریننگ تھی۔

کچھ عرصہ پہلے چند میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ کروانے ہاسپٹل جانا ہوا۔ ابتدائی سوالنامہ fill کرتے ہوئے سٹاف نے مختلف بیماریوں کے بارے میں استتفسار کیا، جنکا جواب yes اور نو میں دینا تھا۔ اس نے پوچھنے کے بعد no کے خانوں کو چیک مارک کر دیا۔ پھر کچھ سوالات، جیسے آپ کیا کرتی ہیں؟ فیملی، بچے وغیرہ۔ میں نے الحمدللّٰہ اپنی فیملی کے بارے میں بتایا۔ چار بچوں کا سننے کے بعد اس نے کہا کہ آپ کی بیماریوں کے سوالنامے پر جہاں میں نے ابھی ساری جگہ no کو مارک کیا ہے، جلد ہی یہ سارے yes میں بدل جائیں گے۔ I have one and I am done۔

میں مسکرا کر ٹیسٹ کروا نے چلی گئی، کہ یہ تو ایک ضخیم موضوع ہے۔ بچوں کو نعمت اور رحمت سمجھنے والے، ان کے بچپن کے ہر ایک پل کو انجوائے کرنے والے، ان کو بھرپور توجہ اور وقت دینے والے، ان کی سلامتی کیلئے ہمیشہ دعا گو، ہم اس طرح سے نہیں سوچتے۔

مغربی والدین کیا اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے؟ بلا شبہ کرتے ہیں لیکن فرق سوچ کا ہے۔ یہاں ماؤں کو دیکھا کہ بچہ پیدا ہونے پر انہیں postpartum depression ہوگیا، اس کے لئے باقاعدہ سینٹرز ہیں۔ جہاں ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے۔ پھر ڈے کئیر اور سکول کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب کے ہمارے ہاں ماں کی گود اولین درسگاہ کے مصداق بچہ ڈے کئیر کے بجائے سکول سے ہی اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ اگرچہ آج کل کی young generation نے اس trend کو کچھ حد تک بدل ڈالا ہے۔

کچھ بچیاں maternity leave کے بعد جاب پر واپس چلی جاتی ہیں اور بچے کو ڈے کئیر میں چھوڑ دیتی ہیں۔ ہمارے کلچر میں ڈے کئیر، اولڈ ہومز ابھی بھی کچھ آسانی سے ہضم نہیں ہوتے۔ بچوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی ماں ڈاکٹر ہے یا انجینئر، ٹیچر ہے یا پائلٹ۔ اس وقت انہیں صرف ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور بلاشبہ ایک تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔

میری ایک کولیگ ٹیچرنے شکایت کی کہ اس کے بیٹے نے بہت اچھی جاب سٹارٹ کی ہے لیکن وہ پوری سیلری یہاں وہاں خرچ کر دیتا ہے، اس طریقے سے وہ کبھی بھی اپنا گھر نہیں بنا پائے گا۔ دوسری کولیگ کہنے لگیں کہ میری بیٹی دو سال سے جاب کر رہی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ رہ رہی ہے۔ لیکن اس کی جاب کے پہلے مہینے سے ہی ہم نے اس سے کہا کہ اب ہر مہینے تمہیں اپنی رہائش، کھانے پینے اور بجلی وغیرہ کا بل ادا کرنا ہوگا۔ سمجھ لو کہ تم الگ ہی رہ رہی ہو۔

اٹلی سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کا کہنا تھا کہ آج دو سال بعد اس کے اکاؤنٹ میں اچھی خاصی رقم موجود ہے کیوں کہ ہم نے پہلے مہینے سے ہی اس کے نام کا اکاؤنٹ کھول کر اس میں وہ پیسے جمع کروانے شروع کر دیئے تھے۔ لیکن اسے نہیں بتایا کیوں کہ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو وہ انہیں یہاں وہاں خرچ کر دیتی۔ جس دن وہ گھر سے جائے گی ہم اسے اس کے اکاؤنٹ کے بارے میں بتا دیں گے۔

ٹک ٹاک ویڈیوز میں ہم چاہے شیمپو کی بوتل میں ختم ہونے پر پانی ملائیں، یا ٹوتھ پیسٹ کو اس کی آخری capicity تک استعمال کر یں۔ یا پھر اپنے بچے کے فیل ہونے یا کم گریڈز لینے پر گرج برس رہے ہوں۔ ان کے دوستوں کا شجرہ نسب پوچھ کر پھر ان سے میل جول کی اجازت دے رہے ہوں۔ لیکن آخر کار ہم غیر مشروط محبت کرنے والے ماں باپ ہیں۔ بس ذرا توازن کا خیال رکھنا چاہیے، دو انتہاؤں کے درمیان بھی ایک راستہ ہوتا ہے، وہی جو خدا کا حکم بھی ہے۔ اعتدال کا راستہ۔

اپنے بچوں کے سامنے پر فیکٹ مت بنیے۔ کبھی کبھی انہیں زندگی کی کسی ناکامی یا struggle کے بارے میں بتائیے تاکہ ان میں میں بھی یہ حوصلہ ہو کہ وہ بھی اپنی کوئ کمزوری یا غلطی آپ سے شئیر کر سکیں۔ ویسے ہم ویسڑن کول پیرنٹس تو نہیں بن سکتے لیکن وقت کے ساتھ تھوڑے بہت flexible ہو سکتے ہیں۔

ایک ٹک ٹاک دیکھی کہ ہم اپنے بچوں کو اپنا ریٹائرمنٹ پلان سمجھتے ہیں اس پر بھی ہنسی آئی کہ بھائی جب زندگی میں انوسٹمنٹ پلان بچے ہیں، تو ریٹائرمنٹ پلان بھی یہی ہوں گے۔ اور نفع نقصان بھی ان سے ہی اٹھا ئیں گے؟

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez