Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Bachpan

Bachpan

بچپن

بچپن انسانی زندگی کا سب سے پہلا اور انمول دور، جو ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رہتا ہیے۔ ہر انسان کا بچپن مختلف، اور اس سے جڑی کھٹی میٹھی یادیں بھی الگ ہی ہوتیں ہیں۔ کسی کا بچپن ایک خو بصورت یاد ہے تو کسی کا تلخ وترش یادوں کا مجموعہ۔ کسی کا بچپن ماں کی نرم گرم آغوش میں اور باپ کے دست شفقت تلے گز رتا ہے، تو کسی کو دونوں میں سے کسی ایک کی محبت میسر آتی ہے۔ اور کسی کے بچپن کو وقت اور زمانے کی بے رحم لہریں بہا لے جاتیں ہیں۔ لیکن بہر طور بچپن تو ہر ایک کا ہو تا ہے۔ جسے وہ اپنی متاع عزیز کی طرح ہمیشہ سنبھال کر رکھتا ہے۔

بچپن کی خواہشات بہت معصوم ہوتیں ہیں۔ کسی چھوٹی سی خواہش کے پورا ہونے پر کل کائنا ت مل جانے کی خوشی کا اظہار کرنا صرف بچپن ہی کا خاصہ ہے۔ مطلوبہ چیز نہ ملنے پر کچھ دیر غمگین ہونا، پھر اسے بھول کر کھیل کود اور شرارتوں میں الجھ جانا بھی بچپن ہی کا کمال ہے۔ بچوں کو جب شرارتوں سے منع کیا جائے اور سکول کی کاپیاں اور کتابیں ان کا منہ چڑا رہی ہوں تو ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ جلدی سے بڑے ہو جائیں۔ اور بچپن کی روک ٹوک سے آزاد ہو جائیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بچپن گزرنے کے بعد ہم اسے بہت یاد کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو آنکھیں بند کر کے بچپن کی وادیوں میں لوٹ جانے کو دل چاہتا ہے۔ جب ہم صرف لمحہ موجود میں جیا کرتے تھے۔ نہ ہی ماضی کی یادیں تھیں اور نہ ہی مستقبل کی فکر ستا تی تھی۔ نہ ہی کندھوں پر کسی ذمہ داری کا بوجھ تھا۔

بچپن کی بات ہو تو اس آنگن کو کیسے نہ یاد کریں جس میں بچپن بیتا ہو۔ ہر کسی کا آنگن الگ، رشتے ناتے الگ ا ور کنبہ الگ۔ بھرے پرے گھر میں رہنے والے بچوں کی یادیں بھی پہت خوب ہوتیں ہیں۔ والد ین سے بے وجہ کی ضد، بہن بھائیوں کی شرارتیں، چھینا جھپٹی، جھوٹی سچی لڑائیاں، روٹھننا منانا وغیرہ۔ اسی آنگن میں بچوں کے نت نئےشوق پروان چڑھتے ہیں۔ رنگوں سے کھیلنا، پتنگ اڑانا، کاغذ کی کشتی، بھاگ بھاگ کر تتلیاں پکڑنا، گڈیاں پٹولے، لکن میٹی، شٹاپو، کیرم بورڈ بہت سے لوگوں کی یاداشت میں اب بھی محفوظ ہوں گے۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بچپن کے مشاغل اور کھیلوں میں بھی کافی تبدیلی آ گئی ہے۔ لیکن بچپن کے رنگ آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ بچے کل بھی فنکار تھے اور آج بھی فنکار ہیں۔

بچپن کی بےغرض اور جان لٹانے والی دوستیاں کون بھلا سکتا ہے۔ سکول میں دوست کی ہوم ورک میں مدد کرنا، اداس لمحوں میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ لانا، اس کی سالگرہ پر گفٹ کے لئے گھنٹوں سوچنا اسی دوستی کی مثالیں ہیں۔ اس وقت دوستوں کی خاطر بنا سوچے سمجھے میدان جنگ میں کود جانے والا جذبہ آہستہ آہستہ مفقود ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں زمانہ سازی شامل ہونے لگتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس بچہ جیب سے غریب اور اپنے دل سے شہنشاہ ہوتا ہے۔ بچپن کی لڑائیاں بھی خوب ہوتیں ہیں۔ گلی محلوں میں لڑنے والے بچوں کی مائیں جب ایک دوسرے کے حسب نسب تک پہنچنے کے بعد اپنے گھر لوٹتی ہیں تو وہی بچے چھپ کر آپس میں اگلے دن کا پلان بنا تے نظر آتے ہیں۔

ہم اپنے بیتے ہوۓ بچپن کو تو واپس نہیں لا سکتے۔ یہ قانون قدرت کے خلاف ہے، لیکن اپنی زندگی میں پھر سے اس سچائی اور بے غرض دوستی کو ضرور واپس لا سکتے ہیں۔ جو ھمارے بچپن کا سرمایہ تھی۔ ہم کسی کڑوی کسیلی بات کو اسی طرح پل میں بھلانے کی ایک کوشش کر سکتے ہیں جیسے بچپن میں بھول جایا کرتے تھے۔ کسی بڑی خوشی کا انتظار کیے بغیر چھوٹی چھوٹی خوشیاں مناسکتے ہیں اور بانٹ سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کا بچپن سنوار کر انہیں آنے والی زندگی کے لئے تیار کر سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی کا بھی خیال رکھیں تاکہ جب بھی وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ان کے پاس ہمارے پیار اور توجہ کی روشن یادیں ہوں۔ اگر ممکن ہو اور اللہ تعالی نے ہمیں اس قابل بنایا ہو تو آیئے ان بچوں کا سہارا بنیں جو کسی محرومی کا شکار ہیں۔ ہمارا ایک قدم کسی ایک بچے کواسکی منزل کا راستہ دکھا سکتا ہے۔ بشیر بدر نے کیا خوب کہا ہے

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں

پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez