Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Abhi Dair Nahi Hui

Abhi Dair Nahi Hui

ابھی دیر نہیں ہوئی

ہمارے ہاں نوعمری سے ہی بچیوں کو گھر کے کام کاج اور امور خانہ داری میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ دوران تعلیم ہی اگر بہت تھوڑا سا وقت بھی کچن میں یا کوئی اور ہنر سیکھنے میں صرف کیا جائے، تو اس سے تعلیمی معاملات ہرگز متاثر نہیں ہوتے۔ اکثر گھروں میں بچیوں کو یہ کہ کر بھی ڈرایا جاتا ہے کہ کچھ سیکھ لو، ورنہ اگلے گھرجا کر کیا کروگی؟

کچھ دہائیاں پہلے تو اکبری، اصغری کے کرداروں کی مثالیں بھی دی جاتی تھیں۔ جہاں اصغری اپنے سلیقے اور ہنرمندی کے کارن اپنی گھر ہستی کو چار چاند لگائے ہوئے تھی۔ وہاں اکبری کی سست طبعیت اور پھوہڑ پن کی عادت خود اسے اورخاندان کو پریشان کیے رکھتی تھی۔ نئی نسل اس کہانی سے واقف ہو یا نہ ہو، اسے اپنے معمولات کے کام خود انجام دینے اور وقت کو صحیح طور پراستعمال کرنا ضرورآنا چاہییے۔

اس بات کی اہمیت تب واضح ہوتی ہے جب آپ کسی نئی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں۔ ہم محاورتاََ اکثر یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ بچہ ہی تو ہے، وقت کے ساتھ خود ہی سیکھ لے گا یا سیکھ لے گی اور یہ سچ بھی ہے کیوں کہ سب سے بڑا استاد وقت ہی ہے۔ لیکن تحقیق سے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نو عمری یا لڑکپن میں سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت بہت مضبوط ہوتی ہے۔

اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں عمررسیدہ افراد بھی کچھ نیا سیکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں جسمانی اور ذہنی فراغت کا تصور ہماری سوچ سے کافی الگ ہے۔ وہاں نوعمر بچے اور طالب علم رضا کارانہ کام یا پھر چھٹیوں میں odd jobs کو بہت خوشی سے انجام دیتے ہیں۔ volunteer کام سے بچوں میں دوسروں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کسطرح وہ اپنے تھوڑے سے وقت میں بھی اپنی کمیونٹی کے لئے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب کہ odd jobs میں انہیں روپے پیسے کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے۔

وہ ضروریات اور خواہشات میں فرق کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ وہ سیکھتے ہیں کہ کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ ہر کام کے لئے محنت درکار ہیے۔ اپنی جاب کے لئے انہیں ایک مقررہ وقت پر تیار ہو کر جانے سے پابندی وقت کا پتہ چلتا ہے اور کام کی جگہ پر وہ مختلف انداز فکرکے لوگوں سے ملتے ہیں جس سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ وہ کام کے دوران پیدا ہونے والے چھوٹے، بڑے مسائل سے نپٹنا بھی سیکھتے ہیں۔ جس طرح نئی چیزوں کوسیکھنا چیلجنگ ہوتا ہے، وہیں سکھانے کا مرحلہ بھی ہرگز آسان نہیں۔ یہ بہت صبر آزما اور تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔ بچوں اور بڑوں میں سیکھنے کی استعداد یکساں نہیں ہوتی اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ ہر شخص اپنی منفرد خداداد صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے اور اس کی محنت اسے سنوارتی اور نکھارتی ہے۔ ہمارے مذہب میں ہمارے لئے علم اور ہنر سیکھنے کے واضح احکامات موجود ہیں

جس قوم کے بچے نہ ہوں خود دار و ہنر مند

اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو

روزمرہ زندگی میں کام آنے والی بہت سی skills ہیں جو گھر پر رہ کر بھی سیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً ہائی سکول کے طالب علم چھٹیوں میں اپنا کھانا بنانا اوراسکو محفوظ کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ تاکہ اگر یونیورسٹی کے لئے انہیں والدین سے الگ رہنا پڑے تو وہ اپنے مدد گارخود ثابت ہو سکیں۔ یہ تصور بھی بدل چکا ہے کہ لڑکوں یا مردحضرات کو کچن میں جانا منع ہے۔ کیوں کہ اگر آپ پاکستان سے باہر کسی ایسے ملک میں ہیں، جہاں آپ کو گھریلو ملازمین کی سہولت میسر نہیں اور کسی گھر میں میاں بیوی دونوں کام کر رہے ہیں۔ تو گھر کے کاموں کی تکمیل میں دونوں ہی کوحصہ لینا چاہییے۔ کیوں کہ جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ بلا تفریق جنس دونوں پر ہی اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے بیٹے کے دماغ میں شروع سے یہ بات ڈالیں گے کہ اسے گھریلو کام کاج یا اپنے ذاتی کام کرنے یا سیکھنے کی قطعا ضرورت نہیں، تو بوقت ضرورت اسے اپنا مائینڈ سیٹ تبدیل کرنے میں بہت مشکل ہوگی۔ کئی گھروں میں ہاؤس وائف کے بارے میں غلط تصور پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتیں۔ جبکہ ان کے ہنراور محنت کو گھر کے ہر کونے میں دیکھا جا سکتا ہے

انسان خواہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہو۔ نیا ہنر یا کوئی بھی نیا مشغلہ آپ کے ذہن کو ایکٹو اور مصروف رکھتا ہے۔ بوریت سے بچاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی بدولت بہت سا وقت یونہی گزار دینا بہت آسان ہے۔ لیکن اسی وقت کو کوالٹی ٹائم میں تبدیل کرنا سو فیصد ہمارے اختیارمیں ہے۔ اگر کبھی زندگی کا تانا بانا الجھ جائے توہو سکتا ہے کہ آپ کا نیا مشغلہ یا نیا ہنر سیکھنے کا عمل اسے سلجھا دے۔ یعنی آپ کی نئی مصروفیت ہی آپ کی توانائی ہو۔ کچھ نیا سیکھنے کا سفر، زندگی کے سفر کے ساتھ ہی ختم ہونا چاہیے، اس سے پہلے نہیں۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf