Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Aaj Kya Pakayen?

Aaj Kya Pakayen?

آج کیا پکائیں؟

آئیے، آج چشم تصور سے قریب پانچ دہائیاں پیچھے جھانکتے ہیں۔ یہ جوائنٹ فیملی سسٹم رکھنے والا ایک سادہ اور روایتی گھرانہ ہے۔ گھر میں افراد خانہ کے علاوہ ملازمین بھی موجود ہیں۔ صبح کے ناشتے کے بعد مرد حضرات کام کاج کی غرض سے باہر جا رہے ہیں، خاتون خانہ سر پر ریشمی آنچل درست کرتے ہوئے پوچھتیں ہیں؟ چوہدری صاحب! آج دوپہر کھانے میں کیا بنائیں؟ چوہدری صاحب قدرے تؤقف کے بعد اپنے من پسند کھانے کا بتا کر باہر سدھارتے ہیں۔

خاتون خانہ کھانے کا اہتمام کرنے یا کروانے لگ جاتیں ہیں۔ ہر گھر میں کم و بیش اسی طرح کا سسٹم تھا۔ دیسی گھی، گھر کے اناج، تازہ گوشت، سبزی اور گھر ہی میں پسے ہوئے تازہ مصالحوں کے ساتھ لذیذ کھانے تیار ہوتے، جن میں مٹن پلاؤ، آلو گوشت، مٹن کڑاہی، ماش کی دال، موسمی تازہ سبزیاں اور میٹھے میں بھنی ہوئی سویّاں، کھیر اور تازہ حلوہ جات وغیرہ شامل ہوتے۔ گھر کی گندم سے توے یا پھر تنور پر تازہ روٹیاں بنائی جاتیں۔

گھر میں موجود بچے بھی وہی کھانا رغبت سے کھاتے۔ سردیوں میں ساگ، مکھن کے ساتھ مکئ کی روٹی سے لطف اندوز ہوا جاتا۔ نان اور بازار کی روٹی کا رواج کم تھا۔ روٹی تو ہر امیر اور غریب کا پیٹ بھرتی ہے، اگرچہ جدید ڈائٹس نے موٹاپے کی فرد جرم روٹی پر عائد کی ہے، لیکن روٹی تنہا اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔ انواع و اقسام کے کھانوں، اسنیکس کی بہتات اور ایک غیر متحرک لائف سٹائل اس کے ذمہ دار ہیں۔

چھان مارے ہیں فلسفے سارے

دال روٹی ہی سب پہ بھاری ہے۔

وقت ڈیڑھ یا دو دہائیاں آگے سرک چکا ہے۔ دیسی مرغی کے ساتھ برائلر چکن بھی دستیاب ہونے لگا ہے۔ اب گھروں میں اور ریستورانوں میں چکن بریانی، چکن قورمہ اور چکن سے لا تعداد ڈ شز بنائی جا رہی ہیں۔ تھوڑا اور آگے چلئے، چائنیز کھانے اپنا لوہا منواتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بچوں، بڑوں اور بوڑھوں میں یکساں مقبول ہیں۔ چائنیز ساس اور مختلف مصالحوں نے ہمیں اپنی طرف کھینچا۔

بے شک ہم نے چینی کھانوں کو ایک نیا انداز دیا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے تک تو خواتین بڑے فخر سے بتایا کرتیں تھیں کہ میری بہو تو چائینیز کھانے بھی بہت اچھے بناتی ہے۔ پھر دھیرے دھیرے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ دنیا بھر کے کھانوں کی تراکیب ہماری پہنچ میں آ گئیں۔ وہ خواتین جن کو کھانا پکانے سے خاص دلچسپی تھی، انہوں نے ان سے استفادہ بھی کیا۔

آج ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔ بہت سا وقت بیت چکا، انسان تہذیب و تمدن کے کئ ادوار سے گزر چکا، رشتے ناتوں کے درمیان ادب آداب میں تبدیلی آئی۔ انداز تخاطب بھی بدلے، فیملی سسٹم میں بدلاؤ آیا۔ آج کل زندگی کی تیز رفتاری کی وجہ سے ہمارے گرد ان گنت مسائل ہیں۔ وقت کی کمی، بچوں کی تعلیم و تربیت، صحت کے مسائل وغیرہ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان تمام بڑے مسائل کے ساتھ ایک سوال ہمیشہ سے موجود رہا ہے، آج کیا پکائیں؟

بلکہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن خواتین کے پاس خانساماں کی سہولت موجود ہے، یہ سوال ان کے لئے بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ فوڈ چینلز اور ککنگ شوز کی بھرمار کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ آج وہ بچے بھی کم ہی دیکھنے میں ملتے ہیں جو ایک ہی سادہ کھانے کو خوشی خوشی کھا لیا کرتے تھے اور اگر نا پسند بھی ہو تو ماں باپ کی گھوری مسئلہ حل کر دیا کرتی تھی۔ آج ہمارا بچہ بھی بے تحاشا فوڈ آپشنز کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔

پہلے تو یہ کہ جو کچھ بھی پکائیں، دل سے پکائیں اور پیار سے کھلائیں اور کھانے والا بھی شکر گزاری کے ساتھ کھائے۔ دوسرا یہ کہ کھانا ذائقہ دار ہونے کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں پر بھی پورا اترے۔ اچھا اور معیاری کھانا بنانا ایک آرٹ ہے، فن ہے۔ پہلے زمانے میں لڑکیوں کو خاص طور پر امور خانہ داری کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جب کہ آج کل لڑکے بھی اس فن میں مہارت حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔ اور صنف نازک بھی عملی میدان میں اتر چکی ہے۔

ایسے تمام پروفیشنز جو کبھی صرف مردوں ہی کے لئے مختص تھے، اب خواتین بھی اس میں اپنا لوہا منواتی نظر آتیں ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین دہری ذمہ داریاں اٹھاتی ہیں۔ اسی لئے کبھی شوہر حضرات بھی گھر کے کام کاج میں یا پھر کچن میں فعال نظر آتے ہیں۔ اگرچہ کچھ گھرانوں میں ابھی بھی اسے کچھ خاص پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دکھا جاتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلا تخصیص جنس کھانا تیار کرنا ایک skill ہے۔ اور یہ کبھی بھی زندگی میں آپ کے کام آسکتی ہے۔

اس لئے اپنے بچوں کو اس skill کے سیکھنے میں رہنمائی کریں تاکہ وہ خود مختار ہو سکیں۔ اسی طرح یہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ اگر کسی گھرانے میں بہو آئے تو کچن کے تمام معاملے کلی طور پر اس کے سپرد کر دیے جائیں۔ ہمارے ہاں کچھ بزرگ بلاوجہ چلنا پھرنا یا ہلکے پھلکے کام کاج کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جو کہ وہ بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن بہو کی آمد سے وہ ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔

ایسا کرنا ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر مزید یا قبل از وقت بوڑھا کر دیتا ہے۔ والدین خاص طور پر ماؤں کو چاہیئے کہ بچوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ اپنی فیملی کے لئے خود کھانا بنانا ایک رحمت اور انجوائمنٹ ہے، اگر آپ یہ سوچ کر بنائیں گے تو کھانا بھی لا جواب ہو گا۔ اسے طرح گھر کے دیگر افراد کو بھی کھانا تیار کرنے والوں کو appreciate کرنا چاہیئے اور کھانے کی تیاری یا بعد کے کاموں میں مدد کرنی چاہیے۔

اپنے افراد خانہ کی پسند، بجٹ اور صحت کے لئے مفید اور لذیذ کھانے کو ترجیح دیں۔ بریانی، کڑاہی، نہاری، حلیم، پائے اور پراٹھے وغیرہ کبھی کبھار بنائیں۔ کیونکہ لائف سٹائل بہت فاسٹ اور مشینی بن چکا ہے ورزش اور جم وغیرہ کے لئے وقت نکالنا بہت مشکل ہے۔ فزیکل ایکٹوٹی برائے نام رہ گئی ہے۔ حقیقت پسندی یہی ہے کہ آسان اور سادہ کھانا کھایا جائے، آج کل وقت کی کمی کے باعث جھٹ پٹ کھانوں کی تراکیب سوشل میڈیا پر نظر آتیں ہیں۔ ان سےفائدہ اٹھائیے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لئے ہفتہ وار پلاننگ بہت مددگار ہو سکتی ہے جس سے وہ بہت سا وقت بچا سکتی ہیں۔

قدرت کا سارا انتظام اعتدال اور توازن پر قائم ہے۔ یہی ہمارے سوال کا جواب ہے، کہ متوازن خوراک کا استعمال کریں۔ کسی بھی غذائی عنصر کی کمی بیشی صحت کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے نبی کریمؐ بغیر چھنی گندم کی روٹی، مکھن، دودھ، جو کا دلیہ، کھجور، سرکہ، تازہ سبزیاں اور پھل، زیتون کا تیل اور تازہ گوشت استعمال کرتے تھے۔ یہ آپ کی محبوب غذائیں تھیں۔ دنیا بھر کے طبیب آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ غذائیں انسانی صحت کے لئے حد درجہ مفید ہیں۔ میٹھا، پھیکا، نمکین، کھٹا، مصالحہ دار یہ سب کھانوں کے ذائقے ہی تو ہیں جو ہماری زندگی میں بھی پوری طرح سے شامل ہیں۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez