Aadatein, Hum Aur Routine
عادتیں ، ہم اور روٹین
زندگی لمحہ بہ لمحہ گزرتے ہوۓ روزوشب کا نام ہے۔ ہم ہرنئی صبح کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں۔ گھڑی کے الارم کے ساتھ جاگنا، چاۓ یا کافی پینا، ناشتہ کرنا، پھر تیار ہوکر اپنے دن کے معموملات انجام دینا ایک روٹین کی بات لگتی ہے۔ روز مرہ کے بیشتر کام ہم اپنی عادت کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔ عادت ہمارا ایک ہی طرح کا رویہ ہے جو ہم زندگی کے مختلف معاملا ت میں اختیار کرتے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ عادتیں ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتیں ہیں۔ عادت بنا سوچے سمجھے بھی ہماری زندگی میں شامل ہو سکتی ہے اور شعوری طور پر بھی اسے اپنا یا جا سکتا ہے۔ پرانی عادات کے نقوش انسانی دل ودماغ پر کافی گہرے ہوتے ہیں، ماہرین کے مطابق پرانی عادات کو ترک کرنا، نئ اچھی عادات کو اپنانے کے مقابلے میں مشکل ہوتا ہے۔ بلاشبہ ایسا فرد واحد کی ذہنی کشادگی، مستقل مزاجی اور تبدیلی کی طرف اس کے رویہ پر منحصر ہے۔
عادتیں ہماری شخصیت کی آئینہ دار ہوتیں ہیں۔ عادتیں نہ صرف ایک انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتیں ہیں، بلکہ اس سے وابستہ افراد کو بھی متاثر کرتیں ہیں۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی جس عادت کو زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں، دوسرے لوگ اس سے نالاں رہتے ہیں۔ انفرادی طور پر شخصی محاسبہ بہت ضروری ہے کہ گاہے بگاہے اپنی شخصیت کا جائزہ لیتے رہیں۔ کہیں آپ کی عادات یا روٹین کسی کی دل آزاری یا تکلیف کا باعث تو نہیں بن رہیں؟ عادتیں اور مزاج ہی کسی دوسرے شخص کو جاننے اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنے میں ہمارے معاون او رمدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ ڈیوک یو نیورسٹی امریکہ کی ایک تحقیق کے مطابق ہمارے کسی بھی ایک دن کے رویہ کی چالیس فیصد ذمہ داری ہماری عادات پر ہوتی ہے۔ بچوں کو شروع ہی سے اچھی عادات سکھانا والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، کیوں کہ بعد میں ہم عادات کو اکثر بچپن سے منسوب کرتے نظر آ تے ہیں۔ ان اچھی عادات میں وقت کی پابندی، ڈسپلن، سچ بولنا، عجزوانکساری اور ذمہ داری کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں گھر کا ماحول، اساتذہ، تعلیمی ادارے اور بچوں کے دوست بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو بچہ ان ادارو ں سے باہر سیکھتا ہے۔ آج کا بچہ اپنے کھانے پینے، سونے جاگنے، اور تعلیمی معا ملات میں خود مختار ہوتا نظر آ تا ہے۔ لیکن بہر طور اس کے کھیل کود او رعادات واطوار کو ایک مناسب اور دوستانہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اچھی عادات کی بات کریں توflexibilty یعنی اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی خاصیت کا ذکر بہت ضروری ہے۔ عصر حاضر میں اس کا فقدان دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ کمی روزمرہ کے معاملات پر بھی اثر انداز ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض افراد بدلنے کے بجائے اپنی انا اور ضد پر قائم رہتے ہیں، خواہ اس کے لئے انہیں اپنے پیارے اور قریبی رشتوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
روٹین ہمارے ذہن اور کوشش کی پیداوار ہے۔ یہ زندگی میں ڈسپلن لاتی ہے۔ روٹین سے اکتاہٹ محسوس ہونے پر اسے توڑ کر کچھ نیا کرنا بھی ایک مثبت قدم ہے۔ آپ اپنی زندگی کو بہتر اور منظم کرنے کے لئے روٹین بناتے ہیں، اسی طرح جب ضرورت ہو تو اسی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے رو یٹن بدل بھی سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی عادت کے خلاف جا ئیں، یا جانا پڑے تو ہم میں سے کچھ افراد کو اچھا محسوس نہیں ہوتا، اسی طرح اگر ہمارے معمو لات میں کوئی تبدیلی آجاۓ، تو وہ بھی شروع میں تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔ کئی دفعہ تو اس تبدیلی کے وجہ سے انسان ہمت اور حوصلہ بھی ہارنے لگتا ہے۔ کیوں کہ تبدیلی لانا اتنا آسان بھی نہیں۔ منفی عادت کو چھوڑنے اور مثبت کو اپنانے کا وقت یا دورانیہ کیا ہے؟ سائنسی تحقیق کے مطابق یہ وقت calculated نہیں ہے۔ یہ لگ بھگ تین ماہ کے قریب ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا انحصار فرد واحد کی شخصیت، ارادے کی مضبوطی اور اس کے عزم پر ہو تا ہے۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس تبدیلی کے بغیر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ مثبت تبدیلی سے بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ اپنی comfort zone سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
اچھی عادات کردارسازی کے لئے اہم ستون کی حیثیت رکھتیں ہیں۔ معاشرتی رویو ں میں سے ایک رویہ جو اب ہماری عادت بن چکا ہے کہ ہم لوگ بات پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔ ایک مدت گزرنے کے بعد بھی اس کو بھول نہیں پاتے۔ یعنی کہ ہم ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں، اور یہ بہت آسان بھی ہے۔ بری یا نا خوشگوار بات کو سننا، اسے برداشت کرنا اور بھول جانا بذات خود ایک جہاد ہے۔ لیکن کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں مضبوط قوت برداشت والے لوگ زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ قوت برداشت اور بزدلی میں فرق ہے۔ مضبوط قوت برداشت والا شخص زندگی میں ہارتا نہیں۔ اسی طرح عجزوانکساری بھی ایک رویہ ہے جسے عادت بنا لینے سے بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دوسروں کی رائے کا احترام کریں، آ پ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ شکایت کرنے کے بجاۓ شکر گزار اور پر امید رہیں۔ ہمارے ہی اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو زندگی کی مشکلات کے باوجود کوئی مثبت کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سوچ کا بھی فقدان ہے کہ do what you like یعنی اپنے آپ کو خوش اور پرسکون رکھنے کے لئے کوئ مثبت یا creative کا م اپنائیں ۔ اس کے بر عکس ہم عا دتا بہت سے کام دوسروں کو خوش یا متاثر کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ selfless service بھی اسی زمرے میں آتی ہے، یعنی کچھ ایسا کریں جس کے بدلے میں آپ کو صرف خوشی ملے۔ اپنی بات دوسرو ں سے کہیں، ان کی بات سنیں۔ ہمارے جذبات و احساسات لمحاتی پیداوار نہیں ہوتے، ان کا مناسب اظہار کریں۔ غصے پر قابو پانا اور معاف کر دینا مومنین کی صفا ت میں سے ہیں۔ ایک اچھی عادت کچھ نیا سیکھنے کی بھی ہے، لیکن یہ ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو اپنے آپ کو ہر بات یا ہر کام کا ماہر سمجھتے ہیں۔ زندگی میں ایک اہم عادت ہمارا way of thinking ہے۔ کچھ لوگ ہر اچھی بات یا چیز میں بھی کوئ منفی پہلو نکال لیتے ہیں۔ اچھے اور مثبت اندازفکر کے لوگو ں کے ساتھ وقت گزاریں، کیوں کہ اس سے زندگی کی طرف دوسروں کا نقطہ نظر جاننے اور کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ امریکہ کے مصنف jim rohn کہتے ہیں
You are the average of the five people you spend the most time with.
اپنے حال میں خوش اور اپنی زندگی میں مگن رہنا ایک اچھی عادت ہے۔ دوسروں سے مقابلہ یا موازنہ کرنے کی دوڑ میں شامل مت ہوں، یہ لا حاصل ہے۔ کسی بھی معاملے میں انتہا پسندی کی عادت زندگی کو مشکل اور تلخ بنا دیتی ہے۔ زندگی ہماری عادات و اطوار، رویہ اور روٹین ہی تو ہے۔ یہی عادات زندگی کی سمت متعین کرتیں ہیں۔ یہی ترقی، کامیابی اور خوشی لاتی ہیں۔ اپنی زندگی کی روٹین سادہ اور آسان بنائیں، اپنے اردگرد لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے، خود کوان عادات کا غلام مت بنائیں جو دوسروں کی زندگی کو نا خوشگوار اور مشکل بنا دیں۔