Talatum Aarzu Mein Hai
تلاطم آرزو میں ہے
انسان اپنی صفات اور مثبت فطرت کے بنا رنگ و خوشبو کے بغیر محض ایک پھول ہے۔ یہ انسان عوام بھی ہے اور لیڈران بھی، پیر و اولیا بھی ہیں اور مرید و بیعت کرنے والے بھی۔ دیگر شعبہ زندگی میں بھی بے شمار مختلف الفاظ اور رویے انسان کے اخلاق و خصوصیات کے ہر ہر پہلو کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انسان کمزور بھی ہے اور یقیناََ کمزور ہی ہے، ضعیف ہے لیکن وہ خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے لیے دنیا کا کوئی کام ناممکن نہیں۔
کہیں وہ خدا ہونے کا دعوی کرتا ہے اور کہیں شعبدہ بازی کے ذریعہ خود کو ایسی ہستی کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا ہونا ناگزیر ہے۔ حالانکہ وہ کمزور ہے۔ طاقت کا یہ اظہار کبھی پیر بن کر مرید جمع کرتا ہے اور کبھی سردار بن کر غلام اکٹھے کرتا ہے جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوں۔ خود پر ان کا یہ اعتقاد اس کی طاقت کو تقویت دیتا ہے اور یہ طاقت آہستہ آہستہ فرعونیت کا روپ دھار لیتی ہے۔
طاقت کے حصول اور اس کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ غلاموں اور پیروکاروں کا یہ اعتقاد اندھا ہو تا ہے کہ انھیں تقلید کے سوا کوئی راستہ سجھائی نہ دے۔ اپنے مقصد کے حصول میں طاقت بھی استعمال کی جاتی ہے جو فرعون بنا دیتی ہے، اور حسن بن صباح کی طرح فدائین بھی تیار کیے جاتے رہے ہیں جو اس کا نام لے کر خود کو موت کے گھاٹ اتار لیا کرتے تھے۔
خود کش بمبار بنانے کے لیے بھی ایسی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ ذہن کو مفلوج کرنے کا عمل ہے جس سے مجمع تخلیق کیا جاتا ہے۔ شعبدہ بازی مذہب میں ہو، سیاست میں یا ذاتی کردار میں توجہ کھینچتی ہے اور اس میں صرف جادو سحر یا مکر و فن ہی نہیں ذہن سازی اور پروپیگنڈہ کا بھی بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔
پیروں کو نیاز، نذر نذرانے دینے کے لیے لوگ اپنے زیور تک بیچ دیا کرتے ہیں، اپنی اولاد گروی رکھ دیتے ہیں اور ایسے ایسے احکامات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتے ہیں کہ پھر آنکھیں زندگی بھر کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ یعنی یکساں ہے انھیں زندگی اور موت کا عالم۔ خود فاقہ کر کے پیر کی جھولی بھری جاتی ہے۔ مولوی نذیر احمد نے اپنے ناول میں جس ٹھگنی کا ذکر کیا ہے وہ دل سے جوڑ کر حکایات سناتی اور لوگوں کو لوٹ کر لے جاتی تھی۔
یہی من گھڑت کہانیاں اور لوٹ مار کا استحصال آج بھی جاری ہے۔ ہمیں خبر ملے کہ کسی کی دعا پوری ہوتی ہے تو ہم مصلہ لپیٹ کر اس کے دوارے پڑے رہتے ہیں۔ ہماری مراد پوری ہو یا نہ ہو لیکن ہمارا اعتقاد ہمیں دوڑائے رکھتا ہے کہ کہیں سے خضر ملے، یا ہما سر پہ بیٹھ جائے یا کوئی پیر زندگی بھر کی پونجی لے کر ہماری کم ہمتی، سستی، کاہلی اور بے عملی کے غبارے میں گیسی ہوا بھر دے تاکہ ہمیں اسے اڑان بھرنے کی کوشش سے بھی نجات مل جائے۔
کراماتی شعبدہ بازیوں کے دشت میں سرگرداں پیر و مغنی ہر بار ایک نیا بہانہ، نئی ڈیمانڈ تراشتے ہیں۔ لیکن ہم لگے رہتے ہیں کیونکہ ہم سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہوتے ہیں۔ ہماری کمزوری، بے بسی اور بے چارگی ہر بار ایک نیا جواز تراشتی ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں جائز ہے۔ مہنگائی، لاقانونیت، بے انصافی کے کاروبار میں رنگ بھرتا جھوٹ اور وعدہ خلافی ہمیں بجھنے نہیں دیتی۔
ہمیں خون دے کر ٹمٹمانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ کیونکہ ہمیں خود تو کچھ کرنا آتا نہیں سو امید نہیں ٹوٹنے دیتے۔ اپنے کسی حق پر آواز نہیں اٹھا سکتے۔ واقعات کے ظہور و نمود کے منصوبہ بندی میں ہم دشمنوں سے اتنا خوف زدہ نہیں جتنا دوستوں کی بددعاؤں سے ڈرتے ہیں۔ دیدہ و دل فرش راہ کیے کرامات کا سکریچ ہماری زندگی کے گرد وہ ڈور باندھ دیتا ہے جس پر آئندہ اٹھنے بیٹھنے سے لے کر سوچ کا مدار ہوتا ہے۔
شبھ گھڑی، نظر بد، حاسدین، حسد، دشمنوں کی پیدا کردہ رکاوٹیں اور ان سے منسلک پروپیگنڈہ ہمیں مفلوج کرنے میں میٹھے زہر کا کردار ادا کرتا ہے۔ فلاں بزرگ، فلاں بابا جی، فلاں لیڈر کے گرد شہد کا چھتا یعنی ان کے کردار و کرامات کی شہرت نہ صرف ہمیں کشاں کشاں وہاں تک لے جاتی ہے بلکہ ہم اردگرد کے لوگوں کو فیض پہنچانے یا اس فیض سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا بابا یا پیر ایسی گیدڑ سنگھی تھامے ہمیں "جا تیرا کام ہو گیا " کے نسخے درکار ہیں۔
ہم تو بھکاری اور نشےکے دھوئیں سے لپٹے لاچار لوگوں کی دعا کو بھی یوں سینے سے لگاتے ہیں جیسے ہماری پاس وہ شہ رگ نہیں جس سے بھی قریب تمام کائنات کو ازل سے ابد تک نوازنے والا ہماری پکار کو ہر لمحہ سنتا ہے۔ وہ غیرت جو درویش کو تاج سر دار پہناتی ہے اور جہان تگ و دو میں بڑی چیز ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ صرف مکر زدہ درویش کے ہاتھ ہے یا تخت پر بیٹھے بت بے رحم کے پاس، اور ہم صرف اس کے دفاع کے لیے رکھے گئے ہتھیار ہیں۔