Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Sandooq Main Padhariye

Sandooq Main Padhariye

صندوق میں پدھارئیے

ان باکس کا اصل مطلب صندوق یا بکسے میں ہی ہوتا ہے۔ صندوق کے معانی سینے میں مخفی رکھنا بھی ہے۔ یادوں کا بھی ایک صندوق ہوتا ہے۔ جسے دھوپ یا ہوا لگوانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے سینت سینت کر رکھا جاتا ہے تبھی تو یہ لو دیتا ہے۔

گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک

خون میں آگ بن کر اتر جائے گی صبح تک یہ مکاں خاک ہوجائے گا۔ (بشیر بدر)

یاد کیجیے قریبا ََہر گھر میں ایک لکڑی یا لوہے وغیرہ کا چو پہلو بڑا ظرف ہوتا ہے جس کے اوپر ڈھکنا ہوتا ہے، یہ کپڑے اور چیزیں وغیرہ رکھنے کے کام آتا ہے۔ اس صندوق میں قیمتی اشیا کے ساتھ موسمی پہناوے بھی محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ برسات میں انھیں چیک نہ کیا جائے تو اکبری کے کپڑوں کی طرح بغارے و گیلا پن سب تباہ کر سکتا ہے۔ سو گرمیوں میں اس سامان کو دھوپ لگوانا نہایت ضروری ہے۔ بقول منیر نیازی

مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں

رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی

اب ان باکس یا میسینجر کی صورت میں ہم سب کے پاس ایک ایک ذاتی صندوق موجود ہے۔ اب یہ استعمال کرنے والوں پر ہے کہ وہ اس سے کیا کام لیتے ہیں؟ شنید ہے کہ زیادہ تر باکس گڈ مارننگ کے پیغامات سے بھرے رہتے ہیں۔ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ کسی قوم کی مہارت صندوق کے ذریعے کیسے جانچی جا سکتی ہے؟ گاہے گاہے اس صندوق کی تصاویر بے موسمی بٹیروں کی طرح گردش کرتی نظر آتی ہیں، اب پگڑیوں کی جگہ پیغامات اچھالے جاتے ہیں۔ تخت گرائے جاتے ہیں۔ پگڑیاں خود بخود گر جاتی ہیں۔

بد زبانی، نادانی و جہالت کے ثبوت صندوق سے نکال کر پیش کیے جاتے ہیں۔ کون جانے کس کے بکسے سے کیا نکل آئے؟ صندوق سے سانپ، بچھو نکلے تو اسے فورا مار دیا جاتا ہے لیکن یہ ایسے صندوق ہیں جن میں زہر سمیٹا جاتا ہے۔ پٹارا پیٹی وہ بکس ہے جس میں مردے کو دفن کرتے یا امانتاً رکھتے ہیں لیکن دورِ جدید میں مرنے والوں سے تعلق کا اندازہ اس صندوق کے پیغامات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ صندوق دل کا بکس نہیں جو محبوب کے لیے مخصوص ہوتا ہے اور اسے عمر بھر کھولا نہیں جاتا کہ دل کی گلی کی طرح اس باکس کا بھی ایک ہی دروازہ ہے۔

اس صندوق کے کئی چور دروازے ہیں۔ اب لوگ اپنے اور دوسروں کے اعمال کے موازنہ کے لیے صندوق کھول کر انصاف کی دہائی دیتے ہیں۔ جونہی کوئی ویڈیو وائرل ہوتی ہے، اپنے اپنے صندوق بھرنے کے لیے لوگ پیشہ ور گداگروں کو بھی مات دیتے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی پیج پر اشیائے صرف سے لے کر مشاطہ کی خدمات تک کے لیے صندوق میں بلایا جاتا ہے اور وہاں فرداََ فردا ََایک ایک کے سوال و جواب میں جو چادر چڑھائی جاتی ہے، اسے صندوق سے باہر رکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

ذرا سوچئے، آپ دکان دار سے کسی چیز کی قیمت پوچھیں اور وہ جواب میں قیمت بتانے کی بجائے آپ سے کہے کہ بھائی ذرا صندوق میں آنا۔ آپ قیمت کا تعین کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس وقت نہیں لیکن آپ کو صندوق کھولنا پڑتا ہے۔ کیمیا گری کے اس عمل میں کئی صندوق تو اب پنڈورا باکس بن چکے ہیں کیونکہ اس صندوق میں گنجائش کی کوئی حد ہی نہیں۔ یہ بکسے عمرو عیار کی زنبیل سے کم نہیں۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں۔

"ہے انسان صنائع قدرت کا ایک صندوق سر بستہ ولیکن یہ نہیں کھلتا کہ اس میں بولتا کیا ہے۔ "

دل کا صندوق زنگ آلود ہو سکتا ہے۔ اس میں دڑاڑ آ سکتی ہے لیکن یہ ان باکس ہر سرد و گرم سے ماورا ہے۔ نازک معاملات سے لے کر ایٹم بم تک اس صندوق کی زینت بن سکتے ہیں۔ جوڑ توڑ کی سیاست اسی پنڈورا بکس کی عطائے رذالت ہے۔ آئی فون کے اسی صندوق کے بل پر ریحام خان سیاست میں داخلہ لے رہی ہیں۔ حریم خان کے اس صندوق میں کیا بھرا ہے جسے بند رکھنے کے لیے کتنے ہی اداروں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں؟"انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا " کے مصداق اگر یہ صندوق کھلے تو" محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی " اس صندوق کی حرمت کیا ہے؟

پاس داری، دیانت داری اور امانت کی تفہیم کے لفظ نئے لباس میں چھم چھم کر رہے ہیں۔ صندوق کے بیرونی اور اندرونی معاملات میں بعد کیوں؟ قیمت کے ٹیگ صندوق میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے اسے سامنے رہنے دیں۔ دوسروں کے ساتھ اپنے معاملات کی تشہیر کے لیے صندوق کا ڈھکنا کھولیے لیکن احترام مانع رہے۔ جن بکسوں کو کوئی شخص دھوپ تک نہیں لگواتا۔ ماہرین آئی ٹی ان صندوقوں کی تلاشی لے کر طاقت و فہم کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar