Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Machli Machli Kitna Pani?

Machli Machli Kitna Pani?

مچھلی مچھلی کتنا پانی ؟

پپو کو بچپن سے ہی مچھلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا۔ جب دوسرے بچے کاغذ کی کشتیاں بنا کر پانی میں چلاتے تو پپو کاغذ کی مچھلیاں بنا کر انھیں ٹب میں ڈالتا اور جب کاغذ خود بخود گھل جاتا تو پپو خود ہی تالیاں بجانے لگتا کہ اس نے مچھلی کو کالے پانی کی قید سنا دی ہے۔ تھوڑا بڑا ہوا تو بھی یہ شوق سلامت رہا۔ کئی بار تو وہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے جہاز کا انتخاب کرتا۔ رن وے پر اسے جب بھی کوئی مچھلی نظر آتی تو وہ اصرار کرتا کہ جہاز اڑنے کے بجائے یونہی پہیوں پر رینگتا رہے۔ اس کا ماننا تھا کہ خطرناک چیزیں پہیوں اور پروں کی زد میں بھی آ سکتی ہیں۔

اس نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ جہازوں کے لیے الگ سے سڑکیں بنائی جائیں۔ بہت سے انڈر پاس اور فلائی اوور کے نام دیکھ کر اس کے دل میں بڑی شدت سے خواہش ابھری کہ کسی طرح ہوائی راستوں کے بھی نام مشہور شخصیات کے ناموں پر رکھے جا سکیں۔ یہ البتہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ انڈر پاس اور فلائی اوور میں کیا فرق ہے؟ جب کہ دونوں نام اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس کے ذہن میں ایسی بہت اہم شخصیات تھیں جو" ہوائی" ہونے کے باعث عوام کے ذہنوں سے اوجھل تھیں۔ مچھلیاں پکڑنے کے لیے پپو نے کتنے ہی ملازم رکھے۔ قابلیت کا معیار بلند آواز نکال کر مچھلیوں کو ڈرانا تھا۔

لفظوں کا کوڑا کرکٹ پھینکنا اور دشنام گوئی کے ساتھ مچھلیوں کو زہر دینا اضافی خوبی ٹھہری۔ البتہ چارے سے گریز بہتر تھا۔ پپو کا ماننا تھا کہ مچھلی کو غلام بنانے کے لیے اس کی جسمانی قوت ختم کرنا ہوگی۔ شائستہ بے روزگار نوجوان جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور نئے نئے امکانات پر کام کرنے اور معاشرتی سلجھاؤ کے حوالے سے لیاقت رکھتے تھے۔ وہ سب دماغ ملکی ترقی کے لیے غیر ضروری قرار دیے گئے۔ البتہ روشن دماغ (قمقموں والے) جو "خصوصی" لیاقت رکھتے تھے (لیاقت کو مذکر نہیں مونث پڑھا اور سمجھا جائے) ملکی باگیں سنبھالنے کے لیے انتہائی موزوں تصور کیے گئے اور انھیں اہم ذمہ داریاں عطا کی گئیں۔

وہ دن رات ہش ہش کر کے دشمنوں پر حملے کرتے۔ روزانہ کی بنیاد پر کانٹے بدلنے کے باوجود کوئی مچھلی تو نہ پکڑی جا سکی ہاں جب جب ملازم کانٹا بدلنا بھول جاتے تو ٹرینیں آپس میں ٹکرا جاتیں۔ ایسے حادثات کو دبانا اور ان پر مٹی ڈالنا بہتر تھا۔ مچھلیاں پکڑنے کی چیخ نما تقاریر میں تمام سانحات راوی ضعیف کی طرح خاموش لیٹے رہتےتھے آنسو بہانے کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ اور ان آنسوؤں سے دریا میں پانی نہیں آ سکتا تھا۔ ذمہ داران کیچووں اور چیونٹیوں کو مچھلیاں قرار دے کر فرائی کرتے۔ وہ ان پر نمک پاشی کرتے۔ اس عمل کی اتنی تشہیر کی گئی کہ سادہ لوح عوام نے چیونٹیوں کو ہی مچھلیاں سمجھ لیا۔

پپو کو اس کے دوستوں نے مبارک باد دی اور اسے مگر مچھ کے شکار کی طرف متوجہ کیا۔ پپو کے حلقہ احباب میں بھی بے شمار گھڑیال موجود تھے لیکن سوٹڈ بوٹڈ ہونے کی وجہ سے انھیں شکنجے میں لانا آسان نہیں تھا سو انھیں فلسفہ کی موشگافیوں کے ذریعہ سادہ گھڑیال ثابت کرکے استثنیٰ دیا گیا۔ مگر مچھ پکڑنے میں پپو کو کوئی دل چسپی بھی نہیں تھی۔ بھلا بھدے اور پر فریب مگر مچھ کا بھولی بھالی مچھلی سے کیا تقابل؟ مچھلی کو چارا بنایا جا سکتا ہے یہ سوچ ازل سے ہی موجود ہے اور خوب پھل پھول رہی ہے۔ دریا کے رخ بہتی مچھلیوں کو کیا خبر کہ دریا کا پانی مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے؟ اوراب ان سے یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ بول مری مچھلی کتنا پانی؟

پانی کم کرنا زمین تنگ کرنے سے کم ظالم حقیقت نہیں۔ لیکن پپو کا ذہن تانے بانے سلجھانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا۔ کچھ دیگر خطرناک اجسام سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر نادیدہ ہو چکے تھے۔ پپو کے پاس بڑا ٹھوس جواز موجود تھا کہ جو اسے دکھائی ہی نہیں دیتا اسے کیونکر پکڑے؟ پپو کے پاس جو جال تھا اسے اس کی کرامات پر پورا اعتقاد تھا۔ اس جال میں بے شمار گرہیں تھیں۔ یہ وہی گرہیں تھیں جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ "ہتھاں نال بنھیاں مونھ نال کھولنیاں پیندیاں نے " اب یہ گرہیں مونھ سے بھی نہیں کھل سکتی تھیں۔ پپو نے کھل جاسم سم کا ورد جاری رکھا اور اس تواتر سے جاری رکھاکہ مائیک سے بھی یہ آواز ہی نکلتی۔

بلکہ کئی بار تو مائیک سے خود بخود یہ ورد جاری ہو جایا کرتااور گنبد کی طرح دیار غیرمیں بھی اس کی آواز پہنچ جاتی۔ ایسے لوگ بھی بیعت کروا کے مچھلیاں پکڑنے پر مامور کیے گئے جو مچھلیوں کے سامنے جا کر انھیں مونھ چڑاتے، انھیں گندے گندے ناموں سے پکارتے اور جینا دوبھر کیے رکھتے۔ کچھ مچھلیوں کے بال و پر اب اس قدر مضبوط ہو چکے تھے کہ وہ اڑنے لگی تھیں لیکن محض اس بنا پر مچھلی کو اڑنے والا پرندہ نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے بڑبولے پن کی وجہ سے پپو اب پپو کی بجائے پوں پوں بن چکا تھا اور ہمارے ذہن متواتر یہی سوچتے رہتے ہیں۔

مچھلیاں، جال، مچھیرے، دریا

یہ مرے خواب، یہ بہتے دریا

(اشرف یوسفی)

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari