Yeh Zindagi (2)
یہ زندگی (2)
یہ ملتان کی ایک گرم سہ پہر تھی
ہم لوگ اپنے ماموں کرنل صبغت اللہ کے گھر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے
ہم لڑکیوں نے پانی کی پائپ پکڑ کر پودوں کو پانی لگانا شروع کیا کہ اچانک ماموں زاد عنبر کے زہن میں شرارت آئی اور اس نے پانی کی تیز دھار کا رخ میری طرف کر دیا
میں کچھ بھیگی ہوئی اور کچھ خشک حالت میں ہی جا کر اس سے پائپ چھینی اور لان سے چھلانگ لگا کر نکلتی ہوئی عنبر پر پائپ کے گول سوراخ کو مزید چھوٹا کر کے تیز دھار پانی کا رخ اس کی جانب کر دیا
عنبر تو جو بھیگی سو بھیگی دیوار کے دوسری طرف لان میں پڑھتے ہوئے ہمسایوں کے (کرنل قدیر علی) بچے کی ساری اسائنمنٹس پانی میں شرابور ہو کر آنکھیں بند کر کے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھیں
اس کے ساتھ ساتھ مزید یہ کہ پاس بیٹھے ہوئے اس کے بڑے بھائی کے چہرے پر بھی پانی کی دھاروں نے جاتے جاتے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہوا تھا
چھوٹی سی باؤنڈری وال کے دوسری طرف سے عاصم علی نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے جب اس طرف جھانکا تو دو خوبصورت سہمی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ کر اس کا غصہ تو کم ہوگیا لیکن پھر بھی اس نے انہیں ڈپٹ کر کہا"یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔ ادھر آئیں اور دیکھیں اپنے کارنامے۔
ہم دونوں آگے پیچھے سہمی ہوئی چلتی ہوئی آئیں تو چھوٹے بھائی قاسم علی کی اسائنمنٹس کا حشر اور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر میں نے کہا" دیکھیں یہ سب غلطی سے ہوا ہے۔۔ میں نے جان کر نہیں کیا۔
اب جبکہ عاصم علی کو یہ لڑکیاں دلچسپ لگیں اور وہ ان سے راہ رسم بڑھانا چاہ رہا تھا اس نے دوبارہ ڈپٹ کر کہا" ٹھیک ہے۔۔ اب ایک غلطی مزید کریں اور یہ قاسم علی کی اسائنمنٹ لے جائیں اور دوبارہ سے بنا دیں۔۔ جہاں کچھ پوچھنا ہو میں آجکل چھٹیوں پر گھر میں ہی ہوں مجھ سے پوچھ لیجئے گا اور اب آپ تشریف لے جا سکتی ہیں۔
لان میں کھڑے کھڑے اساینمنٹ میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے عاصم علی نے رکھائی سے کہا
یہ پہلی ملاقات تھی میری اور عاصم علی کی
اس کے بعد اسائنمنٹ کی تیاری کے سلسلے میں چند مرتبہ اس سے بات چیت بھی ہوئی
ہمارے واپس لاہور آنے کے کوئی دو ماہ کے بعد کرنل قدیر علی کی بیوی اپنے بیٹے عاصم علی کا باقاعدہ رشتہ لیکر ہمارے ہاں آگئیں
رشتہ ہر لحاظ سے مکمل تھا
خوش شکل لڑکا، اچھی تنخواہ، اچھی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب، بیک گراؤنڈ اچھا اور خاندانی طور پر بھی بہترین
جلد ہی شادی ہوگئی اور ہم دونوں نئے شہر میں اپنے گھر میں آ گئے
عاصم بہت رومان پرور، شاعرانہ مزاج، حسن پرست اور انتہائی خوش مزاج تھے
کبھی میرے بالوں کے قصیدے پڑھتے تو کبھی میری رنگت کو سراہتے
کبھی میری جسمانی ساخت کو ترشا ہوا مجسمہ کہتے تو کبھی آنکھوں پر شعر کہتے
کبھی کبھی میں ان کی محبت سے گھبرا جاتی تھی
یہ محبت جو مادی چیزوں سے کی جاتی ہے یہ محبت تو مادی چیزوں جیسی ہی ناپائیدار ہوتی ہے
اصل محبت تو انسان کے اندر کی خوبصورتی سے، انسان کی سوچ سے اس کی فطرت سے اور اس کی روح سے ہوتی ہے
شادی کا پہلا سال تو جیسے ایک خواب کی طرح گزر گیا۔
ان کی جاب کی نوعیت ایسی تھی کہ انہیں مہینے میں ایک مرتبہ visit کیلئے کسی دوسرے شہر جانا پڑتا تھا۔
ہر مرتبہ جانے سے پہلے وہ اداس ہوتے تھے۔ اور جلد سے جلد کام ختم کر کے آنے کا وعدہ کر کے جاتے تھے
دوسرے سال میری بیٹی آئمہ میری گود میں آ گیی۔
اب عاصم علی کی وارفتگی میں کمی آرہی تھی۔ لیکن میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ میں اس بات کو نوٹس کرتی
آئمہ تین سال کی تھی جب ناعمہ ہماری زندگی میں آئی۔
اب تو عاصم علی باقاعدہ میرے سے اور میرے حلئے سے چڑنا شروع ہو چکے تھے۔
کمپنی کی طرف سے visit کا وقفہ کم اور وہاں قیام کا دورانیہ طویل ہوتا جا رہا تھا
اگر کبھی ان کے دوست کی فیملیز آتیں یا فیملی فنکشنز پر لڑکیوں کے درمیان ہوتے تو ان کی شخصیت، ان کی بات چیت، ان کا لباس، ان کی بزلہ سنجی قابل دید ہوتی۔
مجھے اب اندازہ ہو چکا تھا کہ شائد میرے حلیے کی وجہ سے وہ مجھ سے دور جارہے ہیں
میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ اب اپنا خوب خیال رکھوں گی اور وہی فارینہ پھر سے بنوں گی جس کو دیکھتے ساتھ ہی عاصم علی نے اپنا دل میرے قدموں میں رکھ دیا تھا
لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ پہچاننے والے اہنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانتے ہیں
انسان کی ساری منصوبہ بندی اور ارادے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب اللہ کا حکم آجاتا ہے
اللہ کے حکم سے اشعر علی ہماری زندگیوں میں ایسے آیا کہ ناعمہ اور اشعر میں صرف ڈیڑھ سال کا فرق تھا
کہاں میں دو بچوں سے ہی نڈھال تھی تیسرے کی آمد کے ساتھ ہی مجھے شدید ڈپریشن کے دورے پڑنے شروع ہو گئے
میری امی کچھ عرصے کیلئے میرے پاس آ گئیں۔
میری خوراک، میرے آرام کے ساتھ ساتھ امی نے میری کونسلنگ بھی خوب کی
امی نے جانے سے پہلے مجھے اپنے ساتھ لپٹایا، میرا ماتھا چوما۔ اور۔ مجھے کہا"بیٹا! شوہر جتنا بھی اچھا ہو، اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہیں اور زبان بند۔
شائد انہیں کچھ اندازہ ہو چکا تھا کہ عاصم علی کی سرگرمیاں کیا ہیں
زندگی گزارنے کے بارے ہر مرد کے ڈھب اپنے ہی ہوتے ہیں
آج میں سوچتی ہوں کہ تھوڑا ٹف اور رف مرد بحیثیت شوہر، باپ یا ایک زمہ دار شہری کے زیادہ بہتر ہوتا ہے
نسبتاً ایک ایسے مرد کے جو اپنی فیملی کو نظر انداز کر کے صرف اپنی چال ڈھال، اپنے لباس، اپنے ہئر سٹائل، اپنے پرفیوم اور اپنے سیر سپاٹے کا مرغوب ہو، ضروری نہیں کہ تمام مرد ایسے ہوں لیکن میرا تجربہ یہی کہتا ہے۔
ایک دن سردیوں کے کپڑے رکھتے ہوئے کوٹ کی جیبوں کو چیک کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی ڈبیہ ہاتھ میں آ گئی، اسے کھولا تو اس کے اندر بیش قیمت ڈائمنڈ کی انگوٹھی تھی۔
میں نے اندازہ لگایا کہ یہ اشعر کی پیدائش کا میرا تحفہ ہے اور شاید ابھی انہیں، مجھے دینا یاد نہیں رہا
میں نے باقی کپڑے سمیٹ دیے لیکن انگوٹھی والے کوٹ کو ٹرنک میں نہیں رکھا کہ انہیں مجھے دینے میں آسانی رہے
لیکن ہفتہ گزرا دس دن گزر گئے لیکن مجھے انگوٹھی دینا انہیں یاد ہی نہیں آ رہا تھا
ایک دن میں نے کہا"آپ نے مجھے اشعر کی پیدائش پر کوئی تحفہ ہی نہیں دیا۔
تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا کہ کیا تمہیں علم ہے خراجات کہاں پہنچ گئے ہیں اور میری تنخواہ ابھی وہیں کی وہیں ہے
میں خاموش تو ہو گیی لیکن اندر ہی اندر میں کچھ مشکوک ہو چکی تھی
انہی دنوں میں ان کا ٹور آ گیا ایک ہفتے کے لئے انہوں نے دوسرے شہر جانا تھا
موسم تھوڑا گرم تھا
ان کے جانے کے اگلے روز میں نے سوچا کہ آج پارلر کا چکر لگا لوں
بیٹیاں اب سکول جاتی تھیں
چھوٹے کو اور ملازمہ کو لیکر میں گھر کے قریب پارلر چلی گئی
میرا یہ پہلا اتفاق تھا محلے کے کسی پارلر میں جانے کا
اس لئے وہاں نہ میں کسی کو جانتی تھی نہ کوئی مجھے جانتا تھا
زیادہ رش نہیں تھا
میں نے فیشیل لینا تھا
وہاں ورکر بچی میری سکن کو دیکھ کر مجھے ہربل فیشیل، گولڈن فیشیل، وائٹننگ فیشیل کی تفصیلات سے آگاہ کررہی تھی
میں نے کہا کہ جو مناسب، اچھا اور سستا ہے بس وہ کردو
میری آنکھیں بند تھیں اور ورکر بچی میرے منہ پر کچھ لوشن وغیرہ لگا کر مساج شروع کر چکی تھی
جب میرے قریب کسی کے فون کی گھنٹی بجی
" ہیلو۔
میرے قریب سے کسی نے فون سنا
دوسری طرف سے پتہ نہیں کیا کہا گیا
البتہ یہاں والی آواز نے پوچھا
" کہاں پہنچے؟ ؟
"اچھا۔۔ واہ۔۔ واپسی کب تک؟
اب پھر دوسری طرف سے کچھ کہا گیا
جس کے جواب میں یہاں سے اسی آواز نے کہا
" یعنی ابھی واپسی اگلے ہفتے تک ہو گی۔۔ موسم کیسا ہے مری کا؟ ؟
اس مرتبہ ادھر سے کچھ لمبی بات بتائی گئی
جس کے جواب میں یہاں والی لڑکی کی بے ساختہ ہنسی اور بھرپور خوش آواز آئی
ارے واہ۔۔ ڈائمنڈ کی رنگ۔۔ کیا بات ہے۔
اب پھر وہاں سے کسی بات کے جواب میں اس آواز نے کہا
" چلو ٹھیک ہے۔۔ گھر جا کر بات کرتی ہوں۔۔ تم انجوائے کرو۔
پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا تھا کہ یہ جو بھی کچھ ہورہا ہے بس ٹھیک نہیں ہورہا
پارلر کے اندر اے سی کی ٹھنڈک میں بھی میرے ہاتھوں سے پسینے بہے جارہے تھے
یااللہ یہ کون لڑکی ہے۔۔ میں اسے دیکھنا چاہ رہی تھی
ورکر سے کہا مجھے پلیز پانی پلائیں
وہ پانی لینے گئی تو فوراً ساتھ والی لڑکی کو دیکھا
وہ ایک سلم سمارٹ، لمبی اور صاف رنگت والی فیشن ایبل لڑکی تھی لیکن مجھے کیسے پتہ چلتا کہ وہ یہی لڑکی تھی جو فون پر بات کررہی تھی جبکہ وہاں دو اور بھی لڑکیاں موجود تھیں
میرے پاس وقت کم تھا مجھے جلدی پتہ کرنا تھا کہ ان تینوں میں سے فون پر بات کرنے والی لڑکی کون سی تھی
میں نے سب سے پہلے اسی لمبی گوری رنگت والی لڑکی سے پوچھا"اپ تو یہاں آتی رہتی ہوں گی۔۔ اس پارلر کا کام کیسا ہے۔۔ دراصل میری کزن کا برائیڈل میک اپ ہے اس کیلئے پوچھ رہی ہوں۔
اس لڑکی نے کچھ لمحے مجھے غور سے دیکھنے کے بعد کہا" میں تو خود یہاں پہلی مرتبہ آئی ہوں میں تو G۔ G۔ Parler جاتی ہوں۔
اس کی آواز سے پتہ چل چکا تھا یہی وہ لڑکی تھی جو کسی دوسری لڑکی کا فون سن رہی تھی
G G Parlerہمارے علاقے کا سب سے مہنگا پارلر تھا، میں نے شکریہ کہتے ہوئے اس کا نام بھی پوچھ لیا" مجھے ڈولی کہتے ہیں اگر آپ نے دلہن تیار کروانی ہوئی تو بتائے گا میں کچھ رعایت بھی کروا دوں گی۔
اس نے اپنا نمبر مجھے دیا
میں تو کسی کو بھی نمبر دینے کے معاملے میں بہت محتاط رہتی تھی
خیر۔۔ مجھے کیا۔۔ شکر ہے کہ نمبر اس نے خود ہی دے دیا تھا
گو کہ سب کچھ ابھی ایک واہمہ ہی تھا لیکن پھر بھی میرا دل لرز رہا تھا اگر یہ سچ ہوا تو۔۔
اس دوران ہرروز چند منٹ کی کال عاصم علی کی اتی رہی اور سرسری سی بات بچوں کے ساتھ کر لیتے تھے، ان کے واپس آنے کے تیسرے دن میں نے ڈالی کو کال کی کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں کیا آپ کے گھر آ جاؤں؟ ؟
اس کے مثبت جواب پر ان کے گھر گئی تو چھوٹا سا اپارٹمنٹ تھا جس میں جابجا اداکارؤں کی ہوش ربا تصویریں لگی ہوئی تھیں، وہ دو سہیلیاں یہاں اپنی جاب کے سلسلے میں مشترکہ گھر کرائے پر لیکر رہ رہی تھیں۔
میں نے ڈولی سے کہا "دراصل ایک غریب بچی کی شادی کا میک اپ ہے اور میں پارلر میں بیٹھ کر اس موضوع پر آپ سے بات نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے یہاں آپ سے ملنے چلی آئی۔
اتنی دیر میں ایک اور طرحدار لڑکی جس نے جینز کے اوپر سلیولیس شارٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
میرون اونچی ہیل والے جوتے کے ساتھ میرون gucci کا بیگ گلے میں لٹکائے کمرے میں داخل ہوئی
Estee louder
کی خوشبو میں بسی ہوئی
فل میک اپ اور مصنوعی پلکوں کے ساتھ
وہ بہت loud میک اپ کے ساتھ کافی۔ چھچھوری نظر ارہی تھی۔
میری نظریں اس کے ہاتھوں کا تعاقب کررہی تھیں، جونہی اس کے بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں مجھے وہ ڈائمنڈ والی رنگ پہنی ہوئی نظر آئی جو عاصم علی کے کوٹ کی جیب میں، میں نے دیکھی تھی۔
میں کانپتے دل اور لرزتی ٹانگوں کے ساتھ ڈالی سے اپنی طبیعت خرابی کا کہ کر معذرت کر کے چلی آئی۔
شام تک سوچ سوچ کے دماغ مزید چکرا گیا کہ اب کیا کروں، کس سے بات کروں۔
آخر کار نازیہ سے بات کرنے کا سوچا
وہ عاصم علی کے کولیگ کی بیوی تھی اور اس شہر میں میری واحد دوست تھی
نازیہ کو کال کی تو اس نے اگلے دن بچوں کو سکول بھیج کر آنے کا وعدہ کیا، نازیہ بہت۔ ہمدرد طبیعت کی نیک دل لڑکی ہے۔ اگلے دن وہ آئی۔ تو میری سوجی ہوئی آنکھیں اور ستا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی لیکن جب اس نے ساری بات۔ سنی تو وہ میرے سے بھی زیادہ پریشان ہو گئی۔
بہت سوچنے کے بعد نازیہ نے۔ کہا۔ کہ یہ مسئلہ ہم سے حل نہیں ہونے والا۔
میری امی یا عاصم علی کی امی جب تک اس معاملے میں نہیں پڑیں گی تب تک ان کو ہم عورتیں نہیں ہینڈل کر پائیں گی، ابھی معاملہ کسی۔ کنارے۔ نہیں لگ رہا تھا۔
میں اپنے گھر والوں کو کچھ بتا کر اپنے آپ کو بے وقعت نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی عاصم کے گھر۔ والوں سے اس موضوع پر کچھ۔ بات کرنا۔ چاہتی تھی۔
ان دنوں بس اللہ سے باتیں ہوتی تھیں اور میں ہوتی تھی، عاصم کا رویہ میرے۔ ساتھ بد سے بد تر ہوتا جا رہا تھا۔
وہ اگست کی حبس زدہ صبح تھی۔ جب اچانک عاصم علی گھبرائے ہوئے گھر آئے اور مجھے کہا میں کچھ دنوں کیلئے گھر سے باہر جا رہا ہوں، اور تیزی سے بیگ۔ میں کپڑے۔ رکھ کر گھرسےنکلنے لگے لیکن سامنے ہی پولیس تھی۔
پولیس نے غبن کے الزام میں انہیں گرفتار۔ کر لیا
میں جو ایک بزدل۔ سی لڑکی تھی اللہ نے مجھے ڈھیر سارا۔ حوصلہ دیدیا
میں نے اپنے گھر کو، اپنے بچوں کے باپ کو اور اپنے سرتاج کو ہر قیمت پر بچانا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے رشتہ داروں اور میکے میں بھی اپنی عزت کو اچھلنے سے محفوظ رکھنا تھا، سب سے پہلے میں نے نازیہ سے کہا کہ عمران کو کہ کر کسی اچھے وکیل سے ٹائم لیکر۔ دیں، پھر میں نے۔ امی کو۔ کال کی۔ کہ ایک دکان ابا نے۔ میرے نام سے خرید کی تھی۔
اس کی قیمت لگوا کر ہمیں بتائیں کیوں کہ ہم یہاں پلاٹ خرید کرنے لگے ہیں اور ہمیں فوری پیسے چاہیے ہیں
عمران کے توسط سے وکیل سے مل کر سارا معاملہ اسے بتایا، اس کے مشورے کے مطابق عاصم علی کی کمپنی کے مالک سے جا کر زاتی طور ہر ملاقات کی۔
ان سے اس الزام سے انکاری ہونے کی بجائے بغیر کسی بحث کے ان سے معافی کیلئے کہاکیوں کہ میں جان چکی تھی کہ وہ کمپنی کے مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بھی مجرم تھے۔
ان کے آدھے سے زیادہ دورے نجی ہوتے تھے۔ اور ہر دورے میں نت نئی لڑکیاں ان کے ہمراہ ہوتی تھیں، جن کیلئے رقم کے حصول کیلئے وہ آفس کے اکاؤنٹ میں خرد برد کرتے رہے، ان کی کمپنی کے سربراہ رحم دل انسان تھے۔
انہوں نے معاملہ آگے چلانے کی بجائے غبن شدہ رقم وصول کر کے عاصم علی کو جاب سے فارغ کر دیالیکن انہیں تجربہ کے کاغذات دینے کیلئے آفس بلا کر ان سے میرے بارے میں پتہ نہیں کن الفاظ سے میری تعریف کی کہ عاصم صاحب جب گھر آئے تو میرے پاؤں پر گر مجھ سے معافی مانگی۔
لیکن میں نے آج تک انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ان کے بارے میں سب کچھ جان چکی تھی
شدید سردی کی سناٹے میں فجر کی ازان ہوئی تو میں نے چونک کر سنبل کو دیکھا
وہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کررہی تھی
"بیٹا یہ زندگی دارلامتحان ہے، ہر بندے کا امتحان الگ ہوتا ہے۔ میں جانتی۔ ہوں کہ عطاء تھوڑی سخت طبیعت کا ہے لیکن اس کی زندگی میں نہ تم سے پہلے کوئی تھی اور نہ پھر کبھی کوئی ہو گی۔
" وہ اتنے جوگا ہے ہی نہیں کہ کسی نرم و نازک لڑکی سے دو بول پیار کے بول سکے، تو اس کی زندگی کوئی، کیا خاک آئے گی۔
روتے روتے بے ساختہ سنبل نے کہا
اور ہم دونوں ہنسنا شروع ہو گئے