Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Umm e Ali Muhammad/
  4. Shayad Ke Tere Dil Mein Utar Jaye Meri Baat

Shayad Ke Tere Dil Mein Utar Jaye Meri Baat

شائد کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات

لڑکی کا رشتہ آیا۔ دادی نے کہا۔۔ گھر بھی ہے آمدنی بھی ہے اپنے بھی ہیں ہاں کردو۔ شادی ہوگئی۔۔ زندگی کبھی دھوپ کبھی چھاؤں کے ساتھ گزر گئی۔

چند دہائیاں مزید گزر گئیں۔۔ پھر لڑکی کا رشتہ آیا۔۔ دادی یا نانی نے کہا کہ گھر بھی ہے، تعلیم بھی ہے، آمدنی بھی ہے۔ ہاں کردیتے ہیں۔۔ لیکن لڑکی نے کہا کہ ماں ان کا اور ہمارا ماحول بہت مختلف ہے، ہاں مت کیجیے گا۔۔ ماں سمجھ دار خاتون تھی اس کی سمجھ میں بات آگئی رشتےسے معذرت کر لی گئی۔

کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔۔ اب وقت مزید بدل گیا۔۔ ہر زمانے کی ترجیحات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں۔

ایک محنتی شریف لیکن غریب بچے کا رشتہ آیا۔۔ ماں نے سوچا کہ جب میری شادی ہوئی تب میرا شوہر بھی زیادہ امیر نہیں تھا مگر محنتی تھا تو میں نے کچھ عرصہ مشکل لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاری۔۔ اس رشتے پر غور کرتے ہیں۔۔ لیکن بیٹی نے کہا "ماں مجھےامیر شوہر چاہئیے میں اپنی آدھی زندگی آپ کی طرح ترس ترس کر نہیں گزار سکتی۔۔ چاہے بوڑھا ہو، دوسری شادی والا ہو لیکن امیر ہو۔

"پھر بعد میں رونا بھی تم نے ہی ہے۔ ماں سمجھانے کی کوشش کرتی ہے"جی رونا تو ہے ہی۔۔ محل میں بیٹھ کر رونا جھونپڑی میں بیٹھ کر رونے سے کہیں بہتر ہے۔

اب بچیوں کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے اگرچہ ابھی بھی کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں بچیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود آج کل زیادہ تر دوقسم کی بچیاں نظر آرہی ہیں۔ ایک وہ جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں خود کمارہی ہیں یہاں تک پہنچنے میں 30 سے اوپر ہیں تو اب وہ اپنے آرام و سکون (comfort zon) کی زندگی میں کسی اور کو شریک نہیں کرنا چاہ رہی ہیں۔۔ اور نہ کسی سے دب کر رہنا چاہتی ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جن کی نظر میں شادی کا مقصد روپیہ، پیسہ، آزادی اور بہترین طرز زندگی ہے۔

یہ دونوں نظرئیے درست نہیں ہیں۔ اللہ کے لئے کیا مشکل تھا کہ اگر وہ بچوں کو دنیا پر لانے کا کوئی اور طریقہ بنا دیتا اور شادی صرف دو بندوں کی خواہشات و ضروریات کے لئے بنا دیتا۔ اللہ نے شادی اور اس کی زمہ داریوں کو آنے والی نسل کی بقا کے لئے بنایا۔ ان بچوں کے لئے گھر بنایا ماں باپ بنائے، ماوں کے دلوں میں اولاد کی اتنی محبت ڈالی کہ جب اپنی محبت کا ذکر کیا تو ماں کی محبت کی مثال دی۔۔

اس لئے ہم والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں، ان کی تربیت پر نظر رکھیں۔۔ یہی بچے کل کے والدین ہیں۔ انہیں شادیوں سے پہلے ذہنی طور پر آنے والی زمہ داریوں کے لئے تیار کریں۔ یہ درست ہے کہ آج کے دور میں جب انٹرنیٹ نے ساری دنیا بچوں کے لئے کھول کر رکھ دی ہے شادیوں میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہئیے لیکن انہیں ذہنی طور پر آئندہ زمہ داریوں کے لئے تیار کرنا بہت ضروری ہے۔

خاص طور پر لڑکوں کی بھی تربیت بہت ضروری ہو چکی ہے۔ آج کی لڑکی پہلے جیسی دبو یا گھر بنانے والی نہیں ہے، وہ پڑھی لکھی ہے اور اکثر اوقات خود مختار ہے۔۔ اور ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ عورت میں صبر تو ہے لیکن برداشت نہیں ہے۔ صبر کسی بات پر مجبوری میں خاموش ہونا ہے جب کہ برداشت کسی غلط بات پر جواب دینے کی پوزیشن ہوتے ہوئے درگزر کرجانا ہے۔ مرد میں عورت کی نسبت برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے مرد کو چاہئے کہ برداشت اور درگزر سے کام لے، عورت کو وہاں تک مت لے کر جائے جہاں اس کا صبر ختم ہوجائے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ اب بس۔۔

اس سال میں میرے ملنے والوں میں چھ شادیاں ہوئیں جن میں سے چار شادیاں ٹوٹ گئیں اور چاروں شادیوں میں خلع لیا گیا۔ یعنی وہ طلاق جس کا نام لینا بھی گناہ ہوتا تھا آج کی بچی یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کررہی ہے اس لئے اب ہمیں اپنے گھروں کے نظام بدلنا ہوں گے، اپنی سوچ اور لڑکوں کی تربیت کے خدوخال بدلنے ہوں گے۔۔ انہیں یہ نہیں بتانا کہ فلاں نبی کے کہنے پران کے بیٹے نے بیوی کو طلاق دے دی تھی بلکہ یہ بتانا ہوگا کہ ہمارے نبی ﷺ ازدواج مطہرات کی موجودگی میں اپنے کپڑے خود دھو لیا کرتے تھے، اپنے جوتے خود مرمت کرلیتے تھے یہاں تک کہ اپنے کپڑوں پر پیوند تک خود لگا لیتے تھے اور گھریلو کام میں گھر والیوں کے ساتھ مدد بھی کروا دیا کرتے تھے۔

مجھے خوشی ہوتی ہے کہ یہاں قارئین بہت باشعور ہیں پھر بھی اس تحریر کے پیغام کو سمجھانا چاہوں گی کہ جیسا کہ ہم سب انسان ہیں اور خطا کے پتلے ہیں تو اس تحریر میں والدین، بیٹوں اور بیٹیوں تینوں کی کچھ کوتاہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تحریر کا مقصد کسی کو کمتر یا برتر ثابت کرنا نہیں بلکہ بہتری لانا ہے۔

شائد کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات

Check Also

Genting Highlands Main Khubsurat Chinese Temple

By Altaf Ahmad Aamir