Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Oman Diary (7)

Oman Diary (7)

عمان ڈائری ( 7)

بچوں نے مجھے عمان کے بارے میں جو قصے کہانیاں سنائے تھے، ان میں، مجھے سب سے زیادہ پرکشش کہانیاں عمان کے ساحلوں کے بارے میں لگتی تھیں۔ ایک شام کے وقت سڑک سے گزرتے ہوئے دور سے سمندر کی لہروں پر نگاہ پڑی تو میں نے کہا:یہ کون سا سمندر ہے بچو؟ "المصنہ ساحل، بیٹے نے بتایا، اسکے ساتھ ہی گاڑی ادھر کو موڑلی اور سیدھے سادھے ہر قسم کی بناوٹ، سجاوٹ سے پاک، شہر سے نسبتاً قریب واقع اس ساحل پر ہمیں لیکر پہنچ گیا۔

میں اس سے پہلے سعودیہ میں تھاول بیچ، جدہ کارنش اور ینبع بیچ پر جا چکی تھی۔ تھاول بیچ پر سمندر کا دو رنگ کا پانی جو کہ آپس میں مکس نہیں ہوتا ایک ناقابل فراموش نظارہ تھا۔ ینبع بیچ پر گھوڑا گاڑی کا سفر، فضا میں اڑتے ہوئے پتنگ، اور مختلف سٹالز کی رونقیں دل کو بہت لبھاتی تھیں۔ Jeddah chornechکی صفائی، ترتیب سبزہ پارکس، کھانے ہینے کیلئے ہوٹل، سب اپنی اپنی جگہ بے مثال تھےاور اب یہاں عمان میں سوادی بیچ، بچوں کے جھولے سبزہ بہت خوبصورت لگے۔

اس کے بعدSeeb chornechتو خیر بہت ہیwell plannedجگہ ہے۔ جہاں واک کرنے کیلئے خوبصورت راستے سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہونے کیلئے جگہ جگہ چٹانوں پر بیٹھنے کے انتظامات ہیں۔ یہاں ہر قسم کے لوگ نظر آتے ہیں، مقامی، بنگالی، انڈین، متحدہ عرب امارات کے لوگ، انگریز لوگ اور سب کی اپنی اپنی زبان، یہاں خواتین شارٹ سکرٹس میں بھی تھیں اور عبایا میں ملبوس بھی تھیں۔

لیکن مجال ہے کہ کوئی کسی کو گھورے یا کسی کو اپنے سے کمتر سمجھے۔ لیکن ان سارے ساحلوں کی خوبصورتیوں کے باوجود اس سادہ سے ساحل نے میرے دل کو اپنا بنا لیا۔ جب بیٹے نے گاڑی روکی تو شام ڈھل رہی تھی۔ سمندر کی لہریں آگے پیچھے دیوانہ وار جھاگ اڑاتی ہوئی آرہی تھیں، اورا آکر ساحل پر سر پٹخ رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ ہر لہر کے پاس اپنی ایک کہانی ہے جو وہ ہمیں سنانے کیلئے بے قرار ہےاور لہروں کے اس شور میں پتہ نہیں کیا جادو تھا، کہ دل چاہ رہا تھا گھنٹوں کے حساب سے آرام کرسی پر آنکھیں موندے۔ بس۔ اس شور کو سنتے جاؤ۔

سمندر میں ایک غرور، تمکنت، اور شاہانہ انداز نظر آ رہا تھا۔ گویا وہ کوئی صدیوں کا بیٹا تھا۔ جس نے کئی زمانے، کئی دور، کئی فرعون۔ کئی ظالم، کئی مہربان حکمرانوں، کئی بادشاہوں کی حکومتیں بنتی اور بگڑتی دیکھی تھیں۔ سمندر کے اس حصے کا یہ سادہ سا ساحل میرے دل میں جا کر براجمان ہو گیا۔ جس کی ساری خوبصورتی، اس کی بے قرار لہروں میں، لہروں کے شور میں، ہوا میں اڑتے اورڈبکیاں لگاتے ہوئے بگلوں میں، کسی ملاح کی گونج دار آواز کے گیتوں میں،۔ چاند کی چاندنی اور چاندنی میں جابجا چمکتی ہوئی سیپیوں اور بکھرے ہوئے گھونگھوں میں تھی۔

مجھے چھوٹے بچوں کی طرح خوش دیکھ کر بچوں نے فیصلہ کیا کہ اگلے دن طلوع آفتاب کا منظر اور ناشتہ یہاں اس ساحل سمندر پر کریں گے۔ اگلی صبح چھ بجے ہم لوگ ساحل پر موجود تھے، ابلے ہوئے انڈے، کباب، پراٹھے، بسکٹ چائے کا بھرا ہوا تھرموس، فرشی دری، فولڈنگ کرسیاں اور میز، بچوں نے سارا سامان سیٹ کر دیا، موسم کچھ سرد تھا، ہم لوگوں نے یہاں آنے کے بعد پہلی مرتبہ سوئٹر پہنے۔ آج صبح کے وقت تو سمندر کی لہریں کسی شرمیلی دوشیزہ کی طرح جھجکتے ہوئے آرہی تھیں۔ اور آ کر قدموں میں بچھی جارہی تھیں۔

آہستہ سے پاؤں چوم کر پلٹ رہی تھیں اور سمندر کا دھیما دھیما شور، لہروں کی سرگوشیاں ہواؤں کی اٹھکھیلیاں ارد گرد پھیلا ہوا سکون۔ سبحان اللہ بگلے اڑتے ہوئے آتے تھے اور جہاں انہیں اپنا شکار نظر آتا وہ وہ آکر سمندر کے پانی پر جھپٹا مارتے اور کسی کسی وقت تو پانی کے اندر تک گہرا غوطہ لگا کر نکلتے اورکئی مرتبہ چونچ میں شکار کیا ہوا کچھ تڑپتا ہوا، نظر آرہا ہوتا تھا، سورج طلوع ہونا شروع ہوا تو پہلے ایک باریک سی گول سرخ رنگ کی آدھی لائن نظر آرہی تھی۔

کچھ ہی دیر میں سرخ رنگ کا آدھی تھالی جیسا سورج دکھائی دے رہا تھا۔ جتنا سورج آسمان کے کناروں سے بلند ہورہا تھا۔۔ اتنا ہی سمندر میں بھی جھلملا رہا تھا۔ یہ اتنا پیارا منظر تھا کہ بے اختیار اللہ یاد آجاتا تھا۔ تقریباً 5 منٹ کے اندر اندر مکمل سورج ایک لال سرخ دہکتے ہوئے انگارے جیسا دکھائی دے رہا تھااور اسکے ساتھ ہی فضا کی خنکی کچھ کم ہونا شروع ہو چکی تھی، بگلے بھی اپنا ناشتہ کررہے تھے۔

ادھر ہمیں بھی چائے کی طلب ہورہی تھی۔ اب ہم سب نے ٹھنڈی ہواؤں سے محظوظ ہوتے ہوئے ناشتہ اور گرم گرم چائے پی، کچھ دور ملاح اپنی کشتیوں کو پانی میں اتار رہے تھے۔ ایک طرف کچھ نوجوانوں کی ٹولی اپنا رات کو لگایا ہوا جال کھینچ کے نکال رہی تھی۔ میں نے بچوں سے پوچھا کہ آج تو سمندر بڑے ٹھہراؤ کا مظاہرہ کررہاہے۔ تب بچوں نے بتایا کہ شام کے وقت اور چاندنی راتوں میں سمندر کی لہریں ہمیشہ بہت بے تاب اور بے قرار ہوتی ہیں۔

جبکہ دن کو ایسی ہی محبتیں بانٹتی ہیں جیسی آج آپ نے دیکھیں لیکن ایک نتیجہ جو میں نے نکالا وہ یہ کہ سمندر کا شور چاہے بپھری ہوئی لہروں کا ہو یا پرسکون لہروں کا ہو، ڈپریشن کا علاج ہے۔ اگر آپ کے گھر کے قریب سمندر ہے تو ضرور وہاں جائیں۔ اللہ کی شان کو دیکھیں کہ اس کی قدرت نے کیا کچھ تخلیق فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمان کی سیر کا پہلا دور ختم ہوا، اس کے بعد چھوٹی بیٹی نے واپس دبئی جانا تھا۔ اور ہم نے چند دن کے آرام کے بعد عمان کے ہوٹل، مال اور شاپنگ والا کام کرنا تھا۔ عمان ڈائری کا دوسرا حصہ کوشش کروں گی کہ لکھ سکوں۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat