Oman Diary (5)
عمان ڈائری( 5)
کل کے بحث مباحثے کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ آج صحرا اور السوادی بیچ دونوں جگہ کا چکر لگایا جائے گا۔ صحرا جانے کا تو میرا بہت دل چاہتا تھا۔ کیونکہ میرے بچپن کی بے شمار یادیں صحرا سے وابستہ ہیں دراصل ہمارا گاؤں ایک صحرا میں واقع چند سو لوگوں پر مشتمل ایک آبادی ہے۔ جس کے تین اطراف میں ریت اور چوتھی طرف پر دریائے جہلم بہتا ہے۔ بچپن میں جب زور کی ہوا چلتی تھی تو اگلے دن ریت کے پورے پورے ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہو چکے ہوتے تھے۔ اب وہاں نہ پہلے جیسی ریت ہے نا پہلے جیسی ہوائیں چلتی ہیں۔ دریا کا پانی بھی میلوں دور چلا گیا ہے
آج بھی کھانا تیار کر کے ساتھ رکھ لیا تھا۔ ہماری آج کی منزل۔"جما صحرا، تھی۔ راستہ طے کرتے ہوئے حیران کن بات یہ تھی کہ جب تک ہم صحرا کے اندر داخل نہیں ہو گئے، تب تک سڑک بہترین حالت میں تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہاں کیونکہ لوگ کم آتے جاتے ہیں تو سڑک کی حالت مخدوش ہو، آج سارے بچے بھی ہمارے ساتھ تھے۔ عمان کے اس علاقے میں ریت تو تھی ہی سہی اسکے ساتھ ساتھ پہاڑ بھی بہت زیادہ تھے۔
پہاڑوں کو دیکھ کر بچوں نے گانا لگا دیا"ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم۔ تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم، اور آج یہ گانا صحیح ماحول کے مطابق لگ رہا تھا۔ جلد ہی ہم لوگ صحرا پہنچ گئے، لڑکیوں نے پہلے کرسیاں میز سیٹ کیا۔ نیچے دری بچھائی، تکیے لگائے، اونچے اونچے ریت کے ٹیلے دیکھ کر بچوں نے دیوانہ وار دوڑ لگائی اور اوپر جانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ وہ ایک قدم اوپر آگے بڑھتے تو دو قدم پھسل کر پیچھے، نیچے کی طرف آ جاتے تھے۔
نسبتاً بڑے بچے تو تھوڑی مشقت کے بعد اوپر پہنچ گئے اور پھر وہاں سے سلائیڈ لیتے ہوئے نیچے آئےاور اب پھر سے چڑھنے کیلئے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر فقرے بھی کس رہے تھے۔ چھوٹے بچے کیونکہ اوپر جانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو وہیں ریت پر بیٹھ کر کھیلنا شروع کر دیا۔ لڑکیاں تصویریں بنانے میں مگن تھیں۔ جب میں نے دیکھا تو سب سے چھوٹے ڈیڑھ سالہ نواسے کو اس کی بڑی بہن سامنے بٹھا کر ریت کے کپ بھر بھر کر اسکے سر میں ڈال رہی تھی اور وہ بھی بڑی سعادت مندی سے سر جھکا کر ڈلوا رہا تھااور مجھے میرے اپنے بچوں کا بچپن یاد آگیا۔
ایک مرتبہ ہم لوگ اپنے گاؤں گئے، اس وقت میرا بڑا بیٹا 3 سال کا اور بیٹی، ڈیڑھ سال کی تھی۔ جب بیٹے نے ریت کے ڈھیر دیکھے تو کچن سے دو پلیٹیں اور چمچ لےکر آیاایک پلیٹ میں چھوٹی بہن کو ریت ڈال کر دی اور دوسری میں خود ڈال کر بڑی تمیز سے چمچ بھر بھر کے دونوں کھانے بیٹھ گئے، جب ان کی دادی کی نظر پڑی تو بمشکل ان سے پلیٹیں لیکر ریت پھینکی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اور بھی گاڑیاں آنی شروع ہو چکی تھیں۔
یہ ہفتہ کا دن تھا اور وہاں اکثر لوگ ویک اینڈ منانے صحرا میں چلے جاتے ہیں۔ وہاں خیمہ لگاتے۔ کھانا پکانے کا سامان ان کے ساتھ ہوتا وہیں بار بی کیو کرتے اور ایک دن اور رات خیمہ میں گزارتے۔ مجھے یہ طریقہ بہت پسند آیاانسان کو فطرت کے قریب کچھ وقت گزارنے سے ڈپریشن سے کافی حد تک چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ ہمارا کیونکہ بچوں کی وجہ سے تھوڑا وقت وہاں گزارنے کا ارادہ تھا، اس لئے ہمارا کھانا ہمارے ساتھ ہی تھا۔
ابھی بچے ریت میں گھروندے بنانے میں اور بھاگنے دوڑنے میں مصروف تھے۔ ہم لوگ وہیں دری پر بیٹھ کر چیستان کھیلنا شروع ہو گئے۔ یہ بڑی مزے کی گیم ہے تفصیلات پھر کبھی الگ پوسٹ میں بتاؤں گی۔ لیکن میرا بھانجا جو کہ اب میرا داماد بھی ہے حیران ہورہا تھا کہ ہم لوگ کیسے جلدی سے جواب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کچھ دیر میں بیٹیوں نے گاڑی سے کھانے کا سامان نکالاآج سادہ سا کھانا تھا (آلو کے پراٹھے)کیونکہ آج رات ہم لوگوں نے بھی گھر پر بار بی کیو کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھااور اس کیلئے گوشت کو مصالحہ وغیرہ لگا کر آئے تھے۔
کھانا کھا کر ادھر ادھر دیکھا تو ایک خیمہ بستی کے آباد ہونے کی تیاریاں نظر آرہی تھیں۔ یہاں لوگ زندہ دل ہیں اپنی چھٹی سے لطف اندوز ہونے کیلئے کچھ ٹائم کیلئے شہری زندگی سے ہٹ کر یہاں آجاتے ہیں۔ ریتیلا علاقہ دن میں جتنا بھی گرم ہو شام میں بہت ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور ہوا تو ایسے چلتی ہے جیسے آپ پیڈسٹل پنکھے کے سامنے بیٹھ گئے ہوں۔ شام سے کچھ پہلے ہم بھی واپسی کیلئے نکل پڑے۔ گھر پہنچے تو تھکے ہوئے تھے اور بچوں کے بالوں اور کانوں تک میں ریت گھسی ہوئی تھی۔ بچوں کی نہلائی دھلائی شروع ہو چکی تھی۔
لڑکے اپنے کمرے میں اور میں بچوں کے کمرے میں ریسٹ کےلئے آ گئی تا کہ رات کو گوشت بھوننے کیلئے فریش ہو کر اُٹھیں السوادی بیچ کا پروگرام اگلی شام پر کر دیا گیا تھا۔ شام کو جب میں اُٹھی تو بچوں نے صحن میں صحیح ماحول بنایا ہوا تھا۔ لائٹنگ، کرسیاں، دھیما سا میوزک بج رہا تھا۔ عمان کی جو بات مجھے بہت اچھی لگی وہ اس کے کھلے کھلے گھر ہیں۔ مرکزی شہر مسقط میں شاید گھر اتنے کھلے نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ جگہ شاید مرکزی شہر سے تھوڑی ہٹ کر ہے تو یہاں میں نے جتنے بھی پاکستانی گھرانوں سے ملنے گئی ہوں وہ سارے گھر بڑے ہوا دار اور کشادہ ہیں۔
ایک عجیب بات میں نے نوٹ کی وہاں تمام پاکستانی گھروں کے بہت کھلے صحن اور ہر صحن میں کچی مٹی کے اوپر چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر رکھے ہوئے ہیں۔۔ بغیر سیمنٹ کےان پتھروں کو پنجابی میں ہم" گیٹے، کہتے ہیں اور زمین اتنی زرخیز ہے کہ ایک دن بیٹا آفس جاتے ہوئے غلطی سے صحن والا نل بند کرنا بھول گیا تو واپسی تک پورا صحن پانی سے تر بتر تھا۔ اس کے بعد ایک ہفتے کے اندر، اندر زمین سے بہت سارے پودوں نے سر نکالا ہوا تھا۔ اس کے بعد بچوں نے کچھ سبزیوں کے بیج ڈالے تو پودے نکل آئے۔ یہ رات بہت پیاری تھی، ہوا بڑی خوشگوار تھی۔
بچوں نے کوئلے دہکا لئے تو لوہے کی جالی والے سٹینڈ میں گوشت کے ساتھ ساتھ پیاز اور ٹماٹر بھی رکھ کر سٹینڈ کو کو ئلوں پر لگا دیا گیا۔ آج عربی میوزک بج رہا تھا، جونہی ایک پور تیار ہوتا سب لوگ تھوڑا تھوڑا کھا لیتے، ادھر لڑکے گوشت بھوننے کی ڈیوٹی دے رہے تھے۔ رات بہت ٹھنڈی ہو چلی تھی لیکن بچوں کا دل صحن سے اٹھنے کا نہیں تھا، کہیں 12 بجے کے بعد لڑکوں نے بچوں کو اور ہمیں اندر بھیج دیا اور خود کوئلوں پر چائے چڑھا دی۔ چائے پینے کے دوران بچے سو گئے، اب مجھے بھی نیند آرہی تھیایک اور یاد گار دن کا اختتام، آج وقت کی قلت کے باعث السوادی بیچ نہیں جاسکے تھےلیکن آئندہ دنوں میں جانے کا پروگرام پکا تھا۔