Oman Diary (4)
عمان ڈائری ( 4)
آج ہمارا پروگرام رستاق میں واقع ایک چشمے پر جانے کا تھا۔ رستاق عمان کا پرانا دارالخلافہ رہا ہےاور رستاق میں واقع عین الکسفہ چشمہ جہاں ہم جانا چاہ رہے تھے۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا پانی بہت سارے سالوں سے مسلسل گرم حالت میں بہ رہا تھا۔ مجھے بچوں نے کہا کہ ویسے دیکھنے میں آپ کی صحت ٹھیک ٹھاک ہے لیکن جب آپ چلتی ہیں، تو گھنٹوں کے درد کی وجہ سے آپ اتنے برے طریقے سے چلتی ہیں کہ ڈر لگتا رہتا ہے کہ اب گریں کہ تب گریں، میں جانے سے گریزاں تھی۔ میں چاہ رہی تھی وہ لوگ چلے جائیں اور میں گھر پر آرام کروں۔
پہلے بڑی بیٹی نے مجھے قائل کرنے کیلئے ایک لیکچر دیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ دیکھیں امی، اتنے بہت سارے سالوں سے یہ پانی اسی طرح گرم بہ رہا ہے تو اس میں اللہ کی کوئی تو حکمت ہوگی۔ آپ اللہ کی شان دیکھیں کہ مسلسل گرم پانی آرہا ہے اور بے شمار لوگ وہاں نہانے کیلئے جاتے ہیں، ظاہر ہے کچھ فائدہ ہوگا تبھی لوگ جاتے ہیں۔ آپ کے بہانے میں بھی وہاں جاؤں گی، پلیز آپ ہمارے ساتھ چلیں۔
پھر منجھلی بیٹی جو سائنس پڑھتی رہی ہے اس نے کہا:امی اس چشمے کا پانی زیر زمین کسی آتش فشاں کے قریب سے نکل کر آرہا ہے یا کسی ایسی کیمیائی تبدیلی سے گزر کر آرہا ہے، جس کے نتیجے میں یہ گرم حالت میں زمین سے نکل رہا ہے۔ جب کیمیائی تبدیلی ہوتی ہے تو پانی کے اندر موجود اجزاء میں بھی تبدیلی ہوتی ہے، ہوسکتا ہے اس تبدیلی کے نتیجے میں پانی کے اندر کچھ ایسے عنصر یا سادہ لفظوں میں نمکیات پیدا ہو گئے ہوں جو مختلف جسمانی بیماریوں کے خلاف انسانی جسم کی مدد کرنے۔ والے بن گئے ہوں، اس لئے آپ نے ضرور جانا ہے۔
جب میں راضی ہو گئی تو تمام چھوٹے بچوں کو گھر پر چھوڑ کر جانے کا پروگرام فائنل ہوا۔ اس دن جمعہ تھا۔ ہم لوگ گھر سے جلد ہی نکلے تا کہ جمعہ سے پہلے واپس پہنچ جائیں۔ موسم آج بھی بہت خوشگوار تھانہ زیادہ گرمی نہ زیادہ ٹھنڈآج بچے ساتھ نہیں تھے تو پھر میں نے کہا کہ کیونکہ بچے ساتھ نہیں ہیں تو آج اس بوڑھی بچی کی فرمائش پر گاڑی میں ڈیک بجے گا، بچوں نے خوشی خوشی پوچھا کہ کیا لگائیں۔ میں نے کہا:"بیٹا جب ہم سب نماز جمعہ کیلئے مدینہ پاک جاتے تھے تو وہاں مسجد نبوی کے عین سامنے ایک شاپ پر ایک بچے کی آواز میں تلاوتِ لگی ہوتی تھی، وہ اگر ہے تو لگا دو۔
بچوں کو علم تھا کہ مجھے وہ تلاوت بہت پسند ہے۔ مجھے انہوں نے اس کی سی۔ ڈی پاکستان بھی بھیجی تھی۔ میری خوش قسمتی کہ ان کے پاس ابھی بھی وہ موجود تھی۔ عم یتسا لون، 30 ویں پارے سے بچے کی آواز میں تلاوت شروع ہوئی۔ جمعہ کا دن، سڑک کے ساتھ ساتھ کھجوروں کے باغات، میرے مدینے کے ہمسفر میرے ساتھ اور وہی تلاوت وہی سماں بن گیا۔ جب ہم جمعہ پڑھنے مدینہ پاک جایا کرتے تھے
میں نے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔ دونوں آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہتی ہوئی جارہی تھیں۔ کہتے ہیں مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے۔ میرے دل سے ہماری مقبول حاضریوں کی دعائیں نکل رہی تھیں۔ گاڑی میں خاموشی اور سکوت طاری ہو گیا-یقیناً بچے بھی مدینہ پاک کی یادوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ 40 منٹ کا راستہ بہت جلد ہی ختم ہوگیا۔ سامنے ایک بہت بڑا کنواں دکھائی دے رہا تھا -جو کہ اوپر سے بہت بڑے جنگلے سے کور کیا گیا تھا-اس سے جو پانی سب سے پہلے نکل کر آرہا تھا وہ پینے کیلئے تھا۔ اس کے بعد ادھر جارہا تھا جہاں مرد حضرات کے نہانے کیلئے غسل خانے بنے ہوئے تھے
اور اس سے آگے چلتے جائیں تو خواتین کے غسل خانے آجاتے ہیں، نہانے کیلئے پانی کی کوئی ٹونٹی وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔ ہر غسل خانے کے درمیان میں سے گرم پانی کا چھوٹے سائز کا پختہ کھالا سا گزر رہا ہےکیونکہ بہتا پانی پاک ہوتا ہے اس لئے اسی پانی میں سب لوگ وضو کررہے تھے اور نہا رہے تھے۔ یہاں سڑک زیادہ کھلی نہیں ہےاس لئے ہمیں اتار کر گاڑی تھوڑی دور کھڑی کرنی پڑی اس جگہ کا مجموعی تاثر دیہاتی اور پرانے زمانے کا آرہا تھاحالانکہ یہاں بچوں کیلئے جھولے تھے۔ بڑوں کیلئے چھوٹا سا پارک اور بنچ وغیرہ لگے ہوئے تھے۔
اسی عمارت کے اندر ہی ایک مسجد بھی موجود تھی، جب ہم لوگ خواتین والے حصے میں داخل ہوئے تو وہاں خواتین بالکل ہمارے ہاں گاؤں والی خواتین کی طرح ڈھیر کپڑوں کا لیکر بیٹھی دھو رہی تھیں، وہاں اس وقت موجود ساری خواتین کے پاس تین یا اس سے زیادہ بچے بھی موجود تھے جن کو وہاں پر ان کی ماؤں نے نہلانا بھی تھایعنی وہاں جمعہ سیلیبریٹ کیا جا رہا تھا۔ کچھ عورتیں جو پہلے نہا کر اور کپڑے دھو کر فارغ ہو چکی تھیں وہ اب نماز پڑھ رہی تھیں۔ ان لوگوں کے تو جمعہ منانے کے سارے لوازمات وہاں موجود تھےلیکن میرا دل نہیں مان رہا تھا۔