Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Oman Diary (1)

Oman Diary (1)

عمان ڈائری (1)

آخر کار بیڈ روم کانفرنس شروع ہوئی، جس میں ایک بیٹا پاکستان سے اور باقی بچے دنیا کے مختلف شہروں سے شریک تھے۔ میں پاکستان سے باہر رہنے والے بچوں کیلیے بہت اُداس تھی، کیونکہ کرونا کی وجہ سے تیسرا سال شروع تھا اور ملاقات کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی، لیکن سرتاج کی عادت جانتی تھی کہ اگر میں نے کھینچاتانی کی تو جیسے کھینچنے سے کئی مرتبہ گرہ زیادہ سخت ہو جاتی ہے، ایسے ہی ان کی سخت گرہ والے انکار سے بچنے کیلئے انہیں کھینچنے کی بجائے ڈھیل دی کہ خود بچوں سے بات کر کے فیصلہ کریں کہ ہمیں بچوں کے پاس جانا ہے یا نہیں۔

ہم دونوں میاں بیوی کا عمان کا ویزہ ابھی دسمبر 2021 کے آخری ہفتے تک کار آمد تھا۔ مختصر سی میٹنگ کے بعد سرتاج نے بچوں کو بتا دیا کہ"آپ کی امی کو بھجوا رہا ہوں اور میرے آنے کیلئے مجھے کوئی تنگ نہ کرے، بچوں نے باری باری مجھے وٹس ایپ پر الگ الگ میسیج کر کے اپنی اپنی کار گزاری بتائی کہ ہم نے ابو کو کیسے راضی کیا، دونوں بیٹیاں بہت خوش تھیں کہ امی آرہی ہیں اور میں اندر سے اداس تھیں۔

اس وجہ سےکہ 2011 سے لیکر 2018 تک میں لگاتار بچوں کے پاس جاتی رہی، لیکن تب بچے سعودیہ تھے اور میرے ہر سفر میں اللہ پاک مجھے عمرہ کی سعادت سے نوازتے رہے تھے، میں بڑی خوشی خوشی تیاریاں کرتی تھی اور اپنے عمرہ کی چیزیں ساتھ رکھا کرتی تھی، جانے سے کچھ دن پہلے ایک ڈائری پر دعائیں لکھنا شروع کر دیتی تھی اور جہاں تک مجھے سمجھ آتی سب کیلئے دعائیں کرتیاور اس سے پچھلے سالوں میں کتنی ہی راتیں، کتنی صبحیں میں نے اللہ سے رو، رو کر مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں جانے کی دعائیں مانگتی ہوئی گزاری تھیں اور پھر اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

مجھے یاد ہے جب میں پہلی مرتبہ سعودیہ کی زمین پر اتری وہ ستمبر کی رات تھی۔ بہت پیاری ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اس سر زمین پر پہنچ گئی ہوں جہاں میرے مدنی، محمد ﷺ کا ڈیرہ ہے، جہاں کی زمین نے میرے مدنی آقا ﷺ کے پاؤں چومے ہوں گے، جہاں کی فضاؤں نے آپ ﷺ کے وجود کی خوشبوؤں کو محسوس کیا ہوگا، جہاں کی ہواؤں میں آپ ﷺنے سانس لی ہو گی، اس سے پہلے میں نے سرگودھا سے لاہور، پنڈی، اسلام آباد تک کا سفر کیا ہوا تھایا اپنے آبائی گاؤں کا، لیکن سعودیہ میں تو جیسے زندگی مجھے بہت مختلف لگی۔

ریاض سے بریدہ تک کے سفر کے دوران جا بجا محطہ (قیام و طعام) کی سہولت تھی اور اتنی زیادہ روشنیاں سڑکوں پر کہ حیرت ہوتی تھی کہ دوردراز تک کی سڑکوں پر بھی روشنیوں کے اعلیٰ انتظامات ہیں۔ یہ 2012 کی بات ہے جب پاکستان میں لوڈ شیڈنگ زوروں پر تھی، جب سعودیہ میں گھر پہنچنے کے بعد پہلے صبح میری آنکھ کھلی تو میں جلدی سے اُٹھی تا کہ بجلی کے جانے سے پہلے پہلے کپڑے استری کر لوں اور جب دیکھا تو سعودیہ میں تھی۔ تو اطمینان سے دوبارہ سو گئی کہ جب دل چاہے گا تو کپڑے استری کر لوں گی۔ اور اپنے پاکستان کیلئے دل سے بہت دعائیں نکلیں کہ اللہ پاک ہمارے لوگوں کی زندگیاں بھی آسان بنا دے۔

ہماری رہائش بریدہ میں تھی۔ مستشفی سلیمان الحبیب ہمارے گھر کے سامنے تھا، نجم الرومانسی پیدل کے فاصلے پر بالکل قریب تھا۔ جب میں ہائپر پانڈا بچوں کے ساتھ جاتی تو اللہ یاد آجاتاکہ کیسے ایک بے آب وگیاہ ریگستان کو اللہ نے اتنا آباد کر دیا ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں یہاں پہنچا دیں ہیں۔ جب ساڑھے بارہ یا پونے 1بجے ازان ہوتی تھی تو اس وقت تک بچے اپنے سکولوں کالجوں سے واپس نہیں آئے ہوتے تھے۔

تب میں کرسی پر کھڑی ہو کر گھر کے سامنے مسجد میں لوگوں کو دیکھتی، مؤزن مسجد سے باہر ایک چبوترے پر کھڑے ہو کر ازان دیتے تھےاور عربی لباس میں موجود مرد نماز کیلئے اکھٹا ہونے شروع ہوجاتےمجھے لگتا میں، کہیں کسی پرانے دور میں جب آپ ﷺ کا اور صحابہ پاک کا زمانہ تھا وہاں پہنچ گئی ہوں، وہاں اکثر ہم لوگ مسجد نبوی میں جمعہ پڑھنے کیلئے جمعرات کی شام گھر سے نکل جاتے، مدینہ پاک میں ایک سکون ہے ٹھہراؤ ہے ایک وقار ہے۔ مکہ جاتے تو وہاں ایک رعب ہے، دبدبہ ہے، اس کے باوجود اللہ کی محبت محسوس ہوتی ہے۔

پتہ نہیں یہ کیا تھا کہ اللہ کے گھر اور آپ ﷺ کے پاس جا کر بھی، میں بہت رویا کرتی تھی۔ اور اب، جب نہیں جا پاتی ہوں اور دل اداس ہوتا ہے تب بھی بہت روتی ہوں۔۔ اور اس رونے میں بھی کیا لذت ہے۔ اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جنہوں نے اس لذت کو کبھی محسوس کیا ہو۔ اس مزہ کو کبھی چکھا ہو۔ بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے، وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں عمرہ کی یاد داشتیں الگ سے لکھ چکی ہوں اس لیے آگے چلتے ہیں۔

بچوں نے کہا کہ امی مکہ اور مدینہ جیسا تو شاید آپ کو مزہ نہیں آئے لیکن عمان بھی بہت پیاری جگہ ہےیہاں اردو سمجھنے والے لوگ جگہ جگہ مل جاتے ہیں اور بہت سارے لوگوں کا تعلق ہمارے بلوچستان، گوادر سے ہے۔ کئی لوگوں کے ناموں کے ساتھ بلوشی (بلوچی) لکھا ہوتا ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ گوادر کا علاقہ بہت عرصہ پہلے اس وقت کے برصغیر کے حکمران نے تحفتاً عمان کے معزول بادشاہ کو دیا تھا کیونکہ اس کے اپنے ملک کی سرزمینِ اس پر تنگ کر دی گئی تھی۔

بعد میں جب اس کے اپنے حالات بہتر ہوئے اس کی حکومت واپس اسے مل گیی تو ہمارا گوادر کا علاقہ دوبارہ ہمیں قیمتاً ملااس عرصے میں میل جول کی وجہ سے اور یقیناً دونوں علاقوں کے لوگوں کی شادیاں بھی ہوئی ہوں گی تو یہاں اردو سمجھنے والے لوگ ہر جگہ مل جاتے ہیں، جس وجہ سے زیادہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، آج تک یہاں کافی لوگ اپنے ناموں کے ساتھ بلوشی (بلوچی) کا لاحقہ لگاتے ہیں۔

سرتاج نے میرے جانے سے پہلے میرا ہر ایک کام (کاغذات والا) خود حفاظت سے کر کے میرے سپرد کیا۔ میں نے گھر میں موجود ہیلپر بچیوں کو بتایا کہ ایک مہینے کیلئے آپ لوگوں نے چھٹی نہیں کرنی، میری بیٹی (بہو) نے مجھے حوصلہ دیا کہ آپ فکر مت کریں، خوشی خوشی جائیں اور اپنے سفر سے لطف اندوز ہوں اور اچھی اچھی یادیں لیکر آئیں، یوں 14 دسمبر کی رات پی آئ اے سے عمان جانے کیلئے ائر پورٹ روانہ ہوئے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat