Nani Ki Zindagi
نانی کی زندگی
یوں تو نانی کے ہاں ناشتہ نہیں بنتا تھا لیکن ایک سال ایسا تھا جب رمضان کے مہینے میں ہم چاروں بہن بھائی نانی کے پاس گئے ہوئے تھے، تو سحری ٹائم سوئی جاگی سانسوں میں جب دیسی گھی کے بل والے پراٹھوں کی خوشبو سماتی تو ہم سارے بہن بھائی نانی کے جگانے سے پہلے ہی آہستہ آہستہ خود ہی اٹھ کر باورچی خانہ میں پہنچ جاتے۔
ان دنوں روزے سردیوں کے ہوتے تھے اور گاؤں کی راتیں ویسے بھی بہت لمبی ہوتی تھیں، اس لئے سحری تک نیند پوری ہو چکی ہوتی تھی۔
وہاں پہنچتے تو تازہ مکھن کے ساتھ شکر اور کبھی شہد، انڈوں کے آملیٹ، آم، لیموں مرچوں، ڈیلے اور گندلوں کا اچار، رات والا سالن اور چاٹی والی لسی تیار ہوتے۔
بڑے بھائی تو کھانے میں ذرا نخریلے تھے لیکن چھوٹے بھیا تو نانی کے ہاتھ کے پرتوں والے پراٹھوں کے عاشق تھے۔
مجھے آج تک یاد ہے کہ چھوٹے بھیا سحری کھا کر اٹھنے لگے تو شلوار کو نالے والی جگہ سے پکڑ کر اٹھے۔
یہ کیا حرکت ہے؟
بھیا نے کہا "بھئی نالہ ڈھیلا کر کے بیٹھتا ہوں آخر چار پراٹھے، دو انڈوں کا آملیٹ ایک جگ لسی کا پینا ہوتا ہے۔
نانی مسکرا کر کہتیں "ایسے گنتے نہیں ہیں کھائے پئے کو، ماشا اللہ کہتے ہیں۔
نانی بہت منکسر المزاج، دھیمی طبیعت کی شوہر کی انتہائی فرمانبردار خاتون تھیں۔
بڑے ماموں اس زمانے میں ایس پی تھے جب کوئی، کوئی بی اے پاس کرتا تھا اور خال، خال ہی کوئی اس رتبہ تک پہنچتا تھا۔
چھوٹے ماموں بھی بی اے پاس کر کے اپنے گاؤں کی لمبر داری سنبھالنے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ سکول میں ٹیچر تھے۔
امی کے سارے بہن، بھائی بشمول امی کے رعب والی شخصیات تھے خاص طور پر میری امی۔
کبھی جب امی جلال میں ہوتیں تو بھیا کہتے۔
"امی ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ آپ ایس پی صاحب کی بہن ہیں لیکن پلیز اب جانے بھی دیں نا"۔
میرے بچپن کا کافی وقت نانی کے گھر گزرا۔
بچپن میں، میں اچھی خاصی کام چور ہوتی تھی اور ہر اچھی چیز پر اپنا حق سمجھتی تھی۔
ایک مرتبہ ممانی نے کہا کہ "مجھے تھوڑا سارا دبا دو میں تمہیں اچھا سارا تحفہ دونگی"۔
میں تحفے کے لالچ میں بیٹھ تو گئی لیکن پہلا ہاتھ لگانے سے پہلے یہ پوچھا کہ کیا تحفہ دیں گی ممانی جان؟
میں تمہیں سوٹ دونگی۔
میرے ذہن میں بولنے والی گڑیا تھی اس لئے سوٹ والی بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔
لیکن گزارہ کرنا تھا اس لئے ممانی سے کہا "چلیں ٹھیک ہے، لیکن سوٹ ولائتی ہونا چاہئے"۔
ممانی نے کہا "یہ جو تم نے مجھے اڑھائی مرتبہ دبایا اس سے میری درد بالکل ٹھیک ہو گئی جاؤ جا کر کھیلو"۔
تو جناب یہ حالات تھے ہمارے۔
لیکن جب میں بڑی ہوئی تو سب کی توقعات کے خلاف میں بڑی ذمہ دار، پرخلوص ثابت ہوئی۔
اب جب میں سوچتی ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بہت بچپن میں، نیند میں جانے سے پہلے اکثر نانی کے ساتھ سوتے ہوئے نانی کی باتیں سننے سے میرے اندر کچھ باتیں جا کر بیٹھ گئیں تھیں جن کا ادراک مجھے بہت بعد میں ہوا۔
نانی کی زندگی کے واقعات، ان کا نوکروں کے ساتھ مہربانی کا معاملہ، مزارعہ خواتین کے ساتھ کھا پی لینا، چھوٹے بڑے ہر ایک کے ساتھ عزت سے پیش آنا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو مجھے کوئی دس مرتبہ سمجھاتا تب بھی میری سمجھ میں نہیں آنا تھا۔
نانی نے ایک بچی کو سات سال کی عمر سے اپنی بیٹی بنا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس نے کہیں جانا تھا اور اس کے کپڑے صاف نہیں تھے نانی نے اس کے کپڑے خود دھوئے، اس کے بالوں کو سنوارا اور جب شک ہوا کہ بالوں میں جوئیں ہیں تو اس کے سر کی خود صفائی کی۔
اس کے علاوہ بھی کہتی تھیں کہ جو لوگ رتبے میں آپ سے کم بھی ہیں تب بھی ان کی عزت کریں، انہیں اپنے ساتھ بٹھائیں، اپنے ساتھ کھلائیں، ایسا کرنے سے آپ کے اندر عاجزی پیدا ہو گی اور عاجزی والا بندہ اللہ کو بہت عزیز ہوتا ہے۔
مجھے یاد نہیں کہ آج تک میں نے اپنی کسی ہیلپر کے ساتھ تو تڑاک سے بات کی ہو ہمیشہ آپ کہ کر بات کرتی ہوں، یا کبھی نیچے بیٹھنے دیا ہو، میری ہیلپر بچیاں ہمیشہ میرے ساتھ بیٹھتی ہیں اور یہ سب نانی کی صحبت کا اثر ہے۔
یقیناََ سارے بزرگ پرفیکٹ نہیں ہوتے ہوں گے۔ کبھی حالات کی تلخیاں، کبھی بڑھاپے کی بیماریاں انہیں منفی بنا دیتی ہیں۔ لیکن اگر قسمت سے آپ کو اچھے بزرگ مل جائیں تو اپنے بچوں کو موقعہ دیں کہ
بزرگوں کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزاریں۔ آپ کے بچوں کے لاشعور میں کچھ ایسی اچھی باتین بیٹھ جائیں گی جن کے اثرات دور رس ہوں گے۔
اللہ ہمیں، ہمارے بزرگوں کو اور ہمارے بچوں کو ایک دوسرے کیلئے خوشی اور سکون کا باعث بنائیں۔ آمین