Motiye Ke Phool
موتیے کے پھول
جب ہوش سنبھالا تو ابا کے گھر موتیے کے پودوں کو صحن میں دیکھا۔ امی کے روزانہ کے معمولات میں موتیے کے پھولوں کی لڑیاں پرو کر اپنے بالوں میں پیچھے لٹکا لینا شامل تھا جو کہ دوپٹے کے اندر سے نظر تو نہیں آتی تھیں لیکن ایک خوشبو کا ہالہ امی کی شخصیت کا حصہ رہتا تھا۔
یہ کام تقریباً ہماری فیملی کی ساری خواتین کرتی تھیں کہ اسی طرح پھول بالوں میں پیچھے کی طرف بالوں والی سوئی کی مدد سے لٹکا لیا کرتی تھیں اور کچھ لڑیاں پرو کر گھڑوں کے ارد گرد لپیٹ دیتی تھیں۔
اکثر خواتین اور امی بھی دونوں کانوں کی بالیوں کے ساتھ ایک، ایک موتیے کا پھول بھی ڈال لیتی تھیں۔
ہمارے ہاں سردیوں کے موسم میں چنبیلی کے بہت بڑے سے پودے پر بے شمار چنبیلی کے پھول ہوتے اور ان کی تعداد اور خوشبو موتیے کے پھولوں سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔
امی کے پاس سے ہمیشہ موتیا یا چنبیلی کی خوشبو آتی رہتی تھی۔ میری ساتھی لڑکیاں پوچھتیں یہ تم لوگوں کو اتنا اچھا اصلی والا Jasmin پرفیوم کہاں سے ملتا ہے؟
اب میرے اس گھر میں تین مختلف جگہوں پر موتیا ہے۔ ایک گیٹ سے اندر آتے ساتھ ہی ہے۔ جو بندہ اندر داخل ہوتا ہے ایک مرتبہ ضرور توجہ کرتا ہے کہ اتنی پیاری خوشبو کہاں سے آ رہی ہے؟
اس پودے کو تقریباً روز پانی لگ جاتا ہے۔ کیوں کہ جب بھی لان کے کسی اور پودے کو پانی دینا ہو تو یہ راستے میں ہونے کی وجہ سے اسے خوہ مخواہ ہی پانی ملتا رہتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ بچوں کے اے سی کا پانی بھی وہیں گرتا ہے تو وہ پانی بھی آج کل کی شدید گرمی میں اسے سیراب رکھتا ہے۔ اس کے پھول بہت ڈھیروں ڈھیر، ترو تازہ صحت مند اور زیادہ خوشبو والے ہوتے ہیں۔
دوسرا پودا کچن کے قریب ہے۔ وہ، وہاں دھوپ کی شدت سے کافی محفوظ ہے، اسے پانی ملتا ہے لیکن تھوڑا کم۔ اس کے پھولوں کی پتیاں کم اور تھوڑی کمزور ہوتی ہیں۔
تیسرا لان کے سب سے دور دراز والے کونے میں ہے۔ اس کی جگہ ایسی ہے کہ وہاں شدید دھوپ سارا دن لگتی ہے جبکہ پانی بہت کم پہنچتا ہے۔
آج کل موتیے کا موسم ہے میں فجر کی نماز پڑھ کر ہر روز گلاب، موتیا توڑ کر کسی برتن میں تھوڑا پانی ڈال کر کمرے میں رکھ دیتی ہوں، تو سارا دن کمرہ خوشبو سے مہکتا رہتا ہے۔
میں نے ایک نئی بات نوٹ کی کہ جس پودے کو مناسب دھوپ، چھاؤں اور ضرورت کے مطابق پانی مل رہا ہے اس کے پھول زیادہ خوبصورت، صحت مند، خوشبو دار اور تروتازہ ہیں اور جس کو پانی کم مل رہا ہے اس کے پھول نسبتاً کمزور اور کم پتیوں والے ہیں۔
جو پودہ بالکل دھوپ پر ہے اور اسے پانی بھی کم کم ملتا ہے تو اس پر پھول کم آتے ہیں جو آتے ہیں تو وہ پھول بہت سخت ہوتے ہیں۔ ان میں تروتازگی بھی نہیں ہوتی، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی خوشبو بھی ویسی نہیں ہوتی جیسی باقی پھولوں کی ہوتی ہے۔
یہی حال انسان کا بھی ہے، جو انسان کڑے حالات کی دھوپ میں کھڑا ہوتا ہے، جس کے مالی وسائل بھی کم ہوتے ہیں اور زندگی کے چیلنجز سخت۔ وہ انسان بھی تھوڑا سخت مزاج ہو جاتا ہے، باتوں کا منفی رخ زیادہ دیکھتا ہے، بات بات پر غصہ کھا جاتا ہے، چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس بیٹھ کر آپ فریش ہونے کی بجائے پریشان ہو کر اٹھتے ہیں۔
کیوں نہ اپنے ارد گرد ایسے لوگ دیکھ کر ان سے چند اچھی باتیں، کچھ امید افزا جملے کہ کر ان کی تھوڑی سی آبیاری کر دیں۔ یقین کریں کوئی انسان برا نہیں ہوتا۔ بس یہ حالات ہیں جو کہ کبھی کبھی انسان کو منفی بنا دیتے ہیں۔
تو ایسے لوگوں کو تھوڑا مارجن دیا کریں اگر وہ کوئی سخت بات کہ دیں تو اس بات کو جانے دیا کریں، درگزر کر دیا کریں۔
اللہ نے ہمیں کتنی نعمتوں سے نوزا ہے اگر پھر بھی ہم کسی کی مدد نہیں کر سکتے کسی کیلئے وقت نہیں نکال سکتے، کسی کے ساتھ نہیں چل سکتے، مالی طور پر اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے۔
تو کیا ایک مسکراہٹ کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے؟
اللہ ہمیں آسانیاں پھیلانے والا بنائے۔