Meri Khala Saas (1)
میری خالہ ساس (1)
کچھ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو پڑھی لکھی نہیں ہوتیں، انھیں زیادہ باتیں کرنا بھی نہیں آتیں نا ہی وہ ورکنگ ہوتی ہیں لیکن اپنے عمل اور کردار سے اپنے ملنے جلنے والوں کے دل پر نقش ہو جاتی ہیں، آج ایسی ہی ایک خاتون کا ذکر ہے جو خوش نصیبی سے میری خالہ ساس بھی تھیں۔
یہ 2001 کی ایک گرم شام تھی، میں غصے میں مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔ پھپھو(میری خالہ ساساس) کافی دیر تک سنی ان سنی کر کے مجھے ٹالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن آخر بول ہی پڑیں "اب کیا ہوا؟ بس ان کا پوچھنا غضب ہو گیا۔ اتنے دنوں کا غبار پھو پھو (خالہ ساس) کے سامنے رو رو کے نکالا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ شوہر صاحب صبح آفس جاتےہیں تو شام کو آتے ہیں، آتے ساتھ اپنی امی کے کمرے میں بیٹھ جاتے ہی، وہیں کھانا کھاتے ہیں، پھر مسجد جاتےہیں تو وہیں سے باہر بیٹھک پہ سارے دوست اکھٹے ہوجاتے ہیں۔
سیاست، کھیل، محلے کے اور دنیا کے حالات حاضرہ پہ دل کھول کے بول بول کے جب 12، 11 بجے کے بعد گھر آتے ہیں تو میں تھک کے سو چکی ہوتی ہوں آخر میری بھی کوئی زندگی ہے؟ میں نے بھی کوئی بات کرنی ہوتی ہےبس سارا دن کھانا پکاوں، صفائیاں کروں، کپڑے دھووں، استری کروں، بچوں کو پڑھاوں اور ساس کو دیکھوں۔ میرا بھی کوئی حق ہے کہ نہیں؟ اس کا جواب جو خالہ ساس نے دیا وہ بھی مختصراً سن لیجیے"ساری دنیا جہان کی عورتیں اسی طرح کام کرتی ہیں، بچے پالتی ہیں، ساس سسر کی خدمت کرتی ہیں۔ تم تو اللہ کا شکر ادا کرو تمھارا خاوند بد کردار نہیں، بری صحبت میں نہیں اٹھتا بیٹھتا، گھر میں سب کچھ تمھیں لا کے دیتاہے۔
اپنے سے کم تر لڑکیوں کو دیکھو اور آگے لمبی لسٹ ان لڑکیوں کی جن کے خاوند یا سسرال والے اچھے نھیں، مجھے پھپھو کی باتوں کا بہت دکھ ہوا۔ وہ ہمیشہ اپنے بھانجے کی طرفداری کرتی تھیں میں چاہتی تھی کہ ایک دفعہ تو مجھے کہ دیتیں کہ ہاں تم ٹھیک ہو میں تمھارےخاوند کو سمجھاونگی پھر بعد میں بے شک مجھے غلط ہی کہ دیتیں۔ لیکن انھوں نے تو الٹا مجھے اتنی باتیں سنا دیں۔ چند دنوں کے بعد جونھی میرے شوہر گھر پہنچے پھوپھو(خالہ ساس) نے اندر آتے ساتھ انھیں اپنے کمرے میں بلا لیا۔ انکے خیال میں، میں سو چکی تھی لیکن نہ صرف یہ کہ میں جاگ رہی تھی بلکہ کان لگا کے پوری توجہ کے ساتھ انکی بات چیت بھی سن رہی تھی۔
پھپھو نے انھیں کہا کہ تمھاری امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی انکا بہت دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ تمھاری بیوی کی بڑی ہمت ہے وہ سارا دن لگی ہی رہتی ہے۔ ہم دونوں بہنوں کو فریش کھانا کمرے کے اندر پہنچاتی ہے، تم تو بڑے نصیبوں والےہو اس زمانے میں ایسی لڑکی سے تمھاری شادی ہوئی جو اپنے فرائض کو پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔ تم اس کی قدر کرو، اس کو تھوڑا وقت دیا کرو۔ اگر ایک دن اسے صبح جاگنے میں ہی دیر ہو جاے تو اس سارے گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ یہ بیمار ہو گئی تو ہم سارے ہی رل جائیں گے۔
بیویاں اپنے خاوندوں سے کیا مانگتی ہیں؟ دو بول پیار کے اور تھوڑا سا وقت اگر مجھے راضی کرنا ہے تو اپنی بیوی کا خیال رکھا کرو، وہ فلاں کی بیوی زبان دراز ہے، فلاں کی بیوی فضول خرچ ہےاور اس دن مجھے اپنی ان خوبیوں کا بھی پتہ چلا جن کا میں نے خود بھی کبھی نہیں سوچا تھا مثلا میں کپڑے سلائی کرتی تھی جس کو میں اپنی خوبی نہیں سمجھتی تھی کیونکہ میں فیشن میگزین والے ڈیزائن بنوانا چاہتی تھی اور درزن سے وہ بن نہیں پاتے تھے تو میں، تکے لگا لگا کے اپنی مرضی کے مطابق خود ہی بنا لیتی۔
پھر بچوں کو پڑھانا بھی میرا اپنا شوق تھا کیونکہ سارے بچے جو ٹیوشن پڑھتے تھے ان پہ مجھے یہ اعتراض تھا کہ پیپر سے ایک دن پہلے انکی ٹیچر انہیں پورا پیپر کروا دیتی تھیں تو بچے کلاس کے امتحان میں تو اچھے نمبر لے لیتے تھے لیکن بورڈ کے امتحان میں ان کی کارکردگی بہت بری ہوتی تھی یوں میں اپنے شوق سے بچوں کو پڑھاتی تھی پھپھو نے جس طرح میرے شوہر کو سمجھایا اگر میری سگی ماں بھی ہوتی تو شاید اتنے قرینے سے نہ بتا پاتیں جی یہ میری خالہ ساس ہیں جن کے بارے میں، میں آج بات کرنے جارہی۔
پھپھو سعیدہ میری خالہ ساس تھیں اور میرے ابو کی فرسٹ کزن بھی تھیں اور ابو سے بہت پیار کرتی تھیں، تو ہم اس حوالے سے انہیں پھپھو کہتے تھے۔ میری سگی ساس اور خالہ ساس دونوں سلم سمارٹ، گوری چٹی اور انتہائی خوبصورت تھیں۔ جب میری شادی ہوئی تو مجھے لگتا تھا کہ میری ساس بہت اچھی ہیں اور خالہ ساس سخت ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں اپنی خالہ ساس کی گرویدہ ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے ہم سب لڑکیاں (ان کے باقی بھانجوں، بھتیجوں کی بیویاں) چاہتی تھیں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں۔
انہیں کبھی اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ وہ ہمیشہ سچی بات کرتی تھیں اور ان سے کوئی ناراض بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ سب کو سچی بات بتا کے ان کی اصلاح کرنے کی پوری کوشش کرتی تھیں۔ وہ اپنا وقت لگا کے لوگوں کے الجھے ہوے معاملات کو سلجھا دیا کرتی تھیں، لوگوں کا بھلا کرنا ہی ان کی زندگی کا مشن تھا انہیں ساری زندگی میں نے سفید دوپٹے میں اور سادہ ترین لباس میں دیکھا اسکے باوجود وہ اتنی پیاری لگتی تھیں کہ سینکڑوں لوگوں کی محفل میں وہ سب سے الگ نظر آتی تھیں۔
جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے خاوند پولیس میں جاب کرتے تھےسب لوگ یھی سمجھتے تھے کہ پھپھو کی زندگی بہت اچھی گزرے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ پھپھو شادی کے بعد اپنے خاوند کے ساتھ چلی گئی اور کچھ عرصےکے بعد جب وہ ملنے آئیں تو کافی دن تک واپس نہیں گئی۔ جب گھر والوں نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اب واپس کبھی نہیں جائیں گی، گھر والوں نے بہت کوشش کی کہ کچھ پتہ تو چلے کہ ہوا کیا؟ لیکن پھپھو نے تو جسے کچھ نہ بتانے کی قسم کھا لی تھی، پھر سب کو انتظار تھا کہ انکے شوہر آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے لیکن وہ سال کے بعد جب آئے تو انھوں نے بھی کچھ نہ بتایا۔
اس کے بعد زندگی گزر گئی نہ پھپھو نے اور نہ ان کے خاوند نے ایک دوسرے کا گلہ کیا، نہ ہی کسی کو پتہ چلا کہ اصل میں کیا وجہ تھی جو گھر ٹوٹ گیا؟ کسی ایک نے بھی دوسری شادی نہ کی، پھپو کے شوہر ان کی خالہ کے بیٹے بھی تھے۔ اس لیے اس حادثے کے بعد بھی اپنے شوہر کے علاوہ سب گھر والوں کے ساتھ ملنا جلنا رہتاتھاکچھ عرصے کے بعد گھر والوں نے ان کے لیے ایک کمرہ، ایک باورچی خانہ اور ایک برآمدہ بنوا دیا اور وہ اپنے اس حصے میں آگئی، جوں ہی ان کے معاملات کچھ بہتر ہوئے انھوں نے اپنا زیور بیچا اور حج پہ چلی گئیں۔
ان کی زندگی کا کون سا پہلو ہے جو چھوڑ دوں ؟ ان کا ہر ہر عمل بتانے کے قابل ہے۔ ہم لوگ جب اپنے گاؤں جاتے تو کھانا بھی تیار ہوتااور بستر بھی تیار ہوتے تھےاور واپسی پہ انڈے، مرنڈے(بھونے ہوے گڑ والے دانے) ستو، کالے چنے، چنوں کی دال اور بیسن بھی ملتے۔ ہمیں کبھی یہ خیال تک نہ آتا کہ ان کا کمانے والا تو کوئی ہے نہیں تو کہاں سے گھر چلا رہی ہیں ؟ بہت عرصے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پھپھو نے مرغیاں اور بکریاں رکھی ہوئی تھیں اور ان میں اتنی برکت تھی کہ دودھ گھر میں استعمال ہو جاتا تھا، انڈے وغیرہ بیچ دیتی تھیں بکریوں کے بچے کبھی بیچ دیتی تھیں تو کچھ مہینوں کا خرچ نکل آتا تھا۔ مرغیاں بھی ماشاء اللہ خوب پھلتی پھولتی تھیں۔